سقوطِ ڈھاکا سے آرمی پبلک اسکول تک
عاطف توقیر
شدت پسندی فرد کی جانب سے ہو یا ریاست کی جانب سے اس کا نتیجہ انسانی استحصال سے عبارت ہوتا ہے۔ نظریات کو سوالات کی کسوٹی سے ماورا کر دیا جائے، تو انسانی معاشرے بانجھ ہو کر فقط اژدھے کا روپ دھار لیتے ہیں ہیں ان کے منہ سے امڈنے والی چنگھاڑیں فقط انسانی بستیاں اور گھرانے بھسم کرتی ہیں۔
بنگلہ دیش میں حقوق اور خصوصاﹰ مادری زبان کے تحفظ کے لیے چلنے والی تحریک جسے سیاسی انداز سے برتنے کی ضرورت تھی، اس کے خلاف زبردست عسکری قوت کا استعمال کر کے اسے دبانے کی کوشش کی گئی۔ اپنے ہی لوگوں پر اپنی ہی گولی اور بندوق کے استعمال کا نقصان یہ ہوا کہ غصے، دکھ، نفرت اور انتقام کی وجہ سے پیدا ہونے والی خلا کا فائدہ بھارت نے اٹھایا اور نیتجہ ہماری فوج کے ہتھیار ڈالنے اور قریب نوے ہزار فوجیوں کے جنگی قیدی بننے کی صورت میں نکلا۔ اسلامی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مسلم فوج نے دشمن کے سامنے باقاعدہ طور پر اس طرح ہتھیار ڈالے ہوں۔ اس پورے عرصے میں معلومات کی ترسیل پر اس قدر پہرہ تھا کہ مغربی پاکستان میں بسنے والوں کو یہ معلوم ہی نہ ہو سکا کہ ملک کے مشرقی حصے میں ہو کیا رہا ہے۔ آج تک اس سانحے سے متعلق تحقیقات اور قصور واروں کا تعین کم از کم عوامی سطح پر نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی شخص کو سزا ملی۔
اس سانحے کے بعد وقت تھا کہ ہم اپنی جہت درست کر لیتے، یہ طے کر لیتے کہ اب دوبارہ اپنی قوم کو ایسے کسی دھچکے سے دوچار نہیں کیا جائے گا۔ طے کر لیتے کہ اپنی قوم کے لوگوں پر اپنی بندوق اور گولی کا استعمال نہیں ہوتا۔ مگر ہوا بالکل مختلف۔
پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کا فروغ مزید زور و شور سے شروع کر دیا گیا اور ملک میں تفریق در تفریق پیدا کی گئی۔ ملک میں قومیتوں، زبانوں، نسلوں، رنگوں، فرقوں اور مسلکوں کے بیج بوئے گئے اور دن بہ دن اس کام کو شدید رنگ دیا جاتا رہا۔
سقوط ڈھاکا کے بدترین سانحے کی تین دھائیوں بعد پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں بچوں کا قتلِ عام اسی سانحے اور سانحے سے سبق نہ سیکھنے ہی کا تسلسل تھا اور ہماری ان نادرست پالیسیوں کو نتیجہ بھی جو ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنے ملک کو ایک اندھی جنگ میں دھکیل دینے کے لیے تیار کی تھیں۔ اس تسلسل کی زنجیریں پشاور تک ہی محدود نہیں بلکہ ملک کے مختلف حصوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ بلوچ، سندھی، مہاجر، سرائیکی، ہندکو، گلگلت بلتستانی، قبائلی، پشتون اور کشمیری اپنے اپنے انداز سے ریاست سے شکایات کرتے نظر آتے ہیں اور دوسری جانب فرقوں اور مسالک کے درمیان کشیدگی ایسی ہے کہ ایک طبقہ دوسرے کو مسلمان قرار دینے ہی کو تیار نہیں۔
ہمارے ملک کی مساجد جنہیں باہمی محبت اور مفاہمت کے چراغ روشن کرنا چاہئیں، وہ مسلسل آگ اگل رہی ہیں، سیاست دان جنہیں قوم بنانے پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے، وہ باہمی چقلشوں میں مشغول ہیں اور فوج اور خفیہ ادارے ہر اس آواز کو خاموش کرنے پر تلے ہیں، جو کسی بھی طرح سے اس حبس کے خلاف احتجاج کرے۔
دوسری طرف بہ طور قوم ہمارا عالم یہ ہے کہ ملک بننے کے ستر برس بعد بھی ہم اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ ملک میں نظام حکومت ہونا کیا چاہیے۔ بنیادی وجہ تو ظاہر ہے تعلمیی ڈھانچے کی ٹوٹ پھوٹ ہے، جو بہتر دماغ اور فکری اذہان پیدا کرنے کی بجائے بنجر سوچیں اگانے پر متعین ہے۔ تعلیم جسے دیس میں سب سے بڑی ترجیح ہونا چاہیے، وہ حکومتی ترجیحات میں کسی درجے پر نہیں اور ایسے افراد جو کسی حد تک بہتر اذہان کے مالک ہوں، وہ ملک کے اندر رہیں اور آواز اٹھائیں تو ریاست جبر کا شکار ہو جاتے ہیں اور دوسری صورت میں ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک جاتے ملتے ہیں۔
ایسی صورت میں آرمی پبلک اسکول کا واقعہ کوئی تنہا واقعہ نہیں۔ ریاست کی جہت کی تبدیلی فقط اسی طرح ممکن ہے، جب تمام ریاستی ادارے اور پوری قوم یک سو ہو کر علمی قد میں اضافے کی کوشش کرے اور اپنے بیچ ایسی دراڑیں یا خلا پیدا نہ ہونے دے، جس کا نتیجہ کسی سانحے کی صورت میں نکلتا ہے۔