سندھ کا مسئلہ کیا ہے؟

ظفر علی

اگر آپ سندھ میں رہتے ہیں یا آج کل روزگار کے سلسلہ میں سندھ سے باہر رہ رہے ہیں اور آپ کو مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کا دُکھ کھائے جا رہا ہے تو براہ کرم اس تحریر کو آگے مت پڑھیں۔یہ مسئلہ سندھ پہ لکھا گیا نوحہ ہے اور اس کو کُند ذہن والے قارئین پڑھ کر اپنا وقت ضائع کریں گے۔

ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ اس مسئلہ کی جڑ کیا ہے اور یہ کہ مسئلہ حل بھی کرنا ہے کہ بس یونہی پچھلے ستر سالوں کی طرح آگے کے ستر اسی سال بھی گُذارنے ہیں۔

بہت آگے کی بات نہیں کر رہا بس چند ہی مہینوں میں دونوں اطراف کی پارٹیاں (سندھی وڈیرے اور ایم کیو ایم) ایسا نفرت بھرا ماحول رچائیں گے کہ پچھلے ادوار بھول جائیں گے۔ الیکشن میں دونوں کو یہ نفرت کی سیاست سوُٹ کرتی ہے۔ یہ بات سمجھتے سمجھتے اتنی عُمر ہو گئی۔

میری نظر میں سندھیوں کی بربادی کا سبب ظالم وڈیرہ ہے اور میں اس کے خلاف لڑنے کو جہاد سمجھتا ہوں۔ سندھی مُہاجر اتحاد جس دن ہوا حقیقی معنوں میں اُس دن اس وڈیرے کی موت ہوگی۔ وڈیرہ شاہی کو یہ ماحول بہت پسند ہے، آپ کے ذہن میں ایسی نفرت بٹھا دی ہے کہ آپ نہ چاہتے بھی اُسی کی طرف لپکتے ہیں۔

تصور کریں ایک ایسی قیادت کا جس کو اس سے غرض نہیں کہ کون اردو بولتا ہے اور کون سندھی۔ بلا تفریق جو صوبہ کے عوام کی خدمت میں یقین رکھتی ہو۔ وہ دن اُس وڈیرے کی موت کا دن ہوگا وہ اپنی موت آپ مرے گا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے۔ تو سُن لیں بُلکل مُمکن ہے۔ دنیا میں کچھ بھی نا ممکن نہیں۔ میں کراچی میں اُس بدتر دور میں رہا ہوں جب صدر میں کوئی سندھی ملتا تھا تو ایسے خوشی ہوتی تھی جیسے پردیس میں دیکھ کر ہوتی تھی۔ نسل پرستی کا کُچھ حد تک شکار رہتے ہوئے بھی میرے اندر نفرت نہ پنپ سکی کیونکہ میں بھائی لوگوں کو بڑا ہی قریب سے دیکھا ہے۔

اِس اتحاد کو یقینی بنانے میں وقت لگے گا کیونکہ نفرت کے بیج بہت سال پہلے بوئے گئے تھے۔ لیکن ہم کوشش کر سکتے ہیں شاید آنے والی نسلیں وہ سکون کی سانس لے سکیں جو ہم نہ لے پائے۔ ظالم دونوں طرف موجود ہے اور مظلوم فقط دونوں اطراف کی عوام ہے۔

کیا سندھیوں کے گھروں میں سرائیکی ، ڈھاٹکی اور پنجابی نہیں بولی جاتی؟ ٹھیک اسی طرح اردو بھی بولی جا سکتی ہے! ہم اردو زبان کو اپنا سمجھتے ہیں۔ دل سے نفرت اور زہر نکل جائے تو باقی چیزیں خود بخود ختم ہو جائیں گی۔ کوٹا سسٹم ایک بد نما داغ ہے ہمارے اوپر اس کو ختم ہونا چاہئے۔ ہمارے معاشرے کو اردو مڈل کلاس کی ضرورت ہے کہ وہ ہمارا جینئین مڈل کلاس ہے۔

ہم اپنی کوشش کو جاری رکھیں گے تب تک جب تک ہمارے اندر جان موجود ہے۔سندھ کے بیشتر دانشور، مڈل کلاس تعلیمی یافتہ طبقہ اور سیاسی سمجھ رکھنے والے لوگوں کی اکثریت ابھی بھی اسی نظریے کو مانتے ہیں کہ سندھ کی اُردوُ بولنے والی آبادی کو آج یا کَل دیگر ذات یا برادریوں کی طرح سندھیوں میں ضم ہونا ہے۔ یہ سید، بلوچوں، سندھی پٹھانوں اور سماٹ قبیلوں کی طرح ایک قبیلہ ہے، ایک برادری ہے جو کہ دھرتی کی وحدانیت اور اُس کی حفاظت کو اپنا اولین فریضہ سمجھے گی۔ کون اپنی زبان اور رسم و رواج کو چھوڑتا ہے!؟ سندھ میں سرداری نظام کیا سندھ کا اصلی کلچر ہے؟ کیا یہ سندھی بلوچوں کا لایا ہوا نہیں ہے؟ کیا یہ لوگ اپنے گھروں میں سرائیکی نہیں بولتے؟ کیا تھر میں لوگ گھروں میں سندھی بولتے ہیں؟ کیا دیہی سندھ میں گھروں میں آج بھی پنجابی نہیں بولی جاتی؟ کیا آج بھی عرب سے آئے ہوئے سیدوں کے رسم و رواج زندہ نہیں ہیں؟ بُلکل ہیں۔

اپنی اپنی ریت و رسم کو زندہ رکھتے ہوئے یہ لوگ جب باہر نکلتے ہیں تو خوُد کو سندھی کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ دھرتی کی وحدانیت کی حفاظت کرنے میں اُن سے ذیادہ وطن پرست کوئی اور نہیں۔ اور کھویا تو کُچھ بھی نہیں بس پایا ہی ہے آج تک۔ پاکستان کی آزادی سے لے کر آج تک سندھ کے وُزرائے اعلی کی لسٹ نکال کہ دیکھ لیں ہمیشہ آپ کو یا بلوچ یا سید ہی حکومت کرتے نظر آئے گا۔ کون اب بھائی لوگوں کو سمجھائے کہ بھائی سندھی کہلوانے سے آپ پیپلز پارٹی میں شامل نہیں ہو جائیں گے۔ نہ ہی آپ سے کوئی اپنی زبان و شناخت یا رسم و رواج چھین رہا ہے۔ آپ بس ایک اور برادری ہیں! کیا آپ کو پتا ہے آپ کراچی تو کیا پورے سندھ پر حُکمرانی کر سکتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ ہے کہ آپ کا صوُبہ کتنا مالدار ہے اور آپ کے ایک ہو جانے سے آپ وفاق سے کتنا حصہ بجیٹ میں لے سکتے ہیں۔ اتنا کہ یہ خطہ پاکستان تو کیا مشرقِ وسطہ کے خلیجی مُلکوں سے بھی زیادہ ترقی کر سکتا ہے، مگر نہیں۔ لیاقت علی خان سے الطاف حُسین تک آپ کی نسوں میں زہر بٹھایا گیا ہے اس سے خود تو در بدر ہو ہی باقی صوبہ بھی در بدر ہے۔ کیا آپس کی لڑائی میں آپ اپنا این ایف سی کا حصہ نہیں گنوا رہے؟ کیا برمی، بنگالی اور افغانیوں کے لشکر صوبے بھر میں نہیں چھائے ہوُئے؟ بات ہے سمجھ کی، وہ جو آج تک آپ کو کبھی آئی نہیں۔

آج بھی اُردوُ بولنے والوں کی ایک مخصوُص لابی سندھ توڑنے اور الگ صوُبہ بنانے والی تھیوُری پر یقین رکھنی ہے۔ وہ منصوُبہ جو کہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا اب تو پچاس سال پیچھے ہو گیا ہے۔

یہ 90 کی دھائی کے ایم کیو ایم کے ظُلم و ستم کی داستان ہے اور اس میں ذرہ برابر شک نہیں جس طرح اُن دہشتگردوں نے سندھیوں کے ساتھ کیا۔ اب ۲۵ سال بعد دور بدل چُکا ہے الطافی دہشتگرد اپنے انجام کو پہنچ چُکے اور کراچی ایک نئی صُبح دیکھ چُکا۔
مگر۔۔۔۔ اب بھی جو زہر الطاف نے ایک پوری نسل کو پلایا تھا وہ ختم نہیں ہوا۔ یا کراچی کی بات کریں گے یا پھر فورن پاکستانی بن جائیں گے۔ نہیں بنیں گے تو سندھی نہیں۔ کمال کا فلسفہ ہے۔مولا علی کا قول ہے جس پہ احسان کرو اُس کے شَر سے بچو۔

کامن گرائونڈس کی ہی بات کی ہے لیکن کُچھ غلط فہمیاں دوُر کرنا ضروری تھی۔ میں blunt ہی صحیح پر مُنافق نہیں۔

اردو اور سندھی بچوں کی بڑی تعداد بہتر تعلیم سے محروم ہے۔ کچھ برین ڈرین بھی ہو رہا ہے تو اگر حالات ییہی رہے تو آج سے دس سال بعد کی ٹیکنالوجی کسی کام کی نہیں۔

بہتر تعلیم کے لئے امن، وسائل، لیڈرشپ اور امیر ترین صوبہ کے وصائل پر مکمل حاکمیت ضروری ہے۔ وہ ایکے اور اتحاد کے بغیر ناممکن ہے۔ اتحاد کیلئے غلط فہمیاں دور ہونی چاہئیں اور غلط فہمیاں دور کرنے کیلئے نیک نیتی اور سچ ماننے اور بولنے کی ضرورت ہے۔