سور کا گوشت کھانا، گناہ کبیره یا صغیره
جاوید قریشی، بارسلونا
اس وقت یورپ میں رہائش پذیر پاکستانیوں میں بہت ہی کم پاکستانی ہیں جو یہاں کی تہذیب و ثقافت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں بس اکثریت صرف گناہ اور ثواب کے چکروں میں رہتی ہیں۔ بعض پاکستانی تو یہاں کے ہوٹلوں میں پانی تک نہیں پیتے کہ ان گلاسوں میں شراب پی جاتی ہو گی اور بعض تو بیکری سے ڈبل روٹی تک لے کر نہیں کھاتے کہ شاید اس میں سور کی چربی نہ شامل کر دی گئی ہو۔ بہت سے پاکستانیوں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں، وہ شراب پیتے ہیں، ہسپانوی لڑکی دوست ہے اور اس کے ساتھ جنسی تعلقات بھی استوار ہیں لیکن سور کا گوشت کے کھانے کو بہت ہی بڑا گناہ تصور کرتے ہیں۔ ان کے اس عمل کو مقامی ہسپانوی برادری بڑی عجیب و غریب نظروں سے دیکھتی ہے۔لیکن اس معاملے میں زیادہ تر پاکستانیوں کا بس ایک ہی جواب ہوتا ھے کہ سور کھانا بہت بڑا گناہ ہے، اس لیے ہم نہیں کھاتے۔
میرے نزدیک شراب پینا اور زنا کرنا، سور کھانے سے بہت بڑے گناہ اور جرم ہیں۔ ان دونوں جرائم پر ریاست سزا دیتی ہے لیکن سور کا گوشت کھانے پر ریاست کوئی سزا نہیں دیتی۔ لیکن پاکستانی یہ دونوں ’جرائم‘ بڑے ذوق و شوق سے کرتے ہیں اور پھر فخر سے کہتے ہیں دیکھو ہم سور کا گوشت بلکل نہیں کھاتے۔
اور اس طرح ہم ایک بہت بڑے گناہ سے بچ جاتے ہیں اور جب ان سے اس کی وجوہات دریافت کی جائیں تو عجیب و غریب اور مضحکہ خیز حد تک جواب ملتے ہیں۔ سور نہ کھانے کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سورنی (مادہ سور) جنگل میں کھڑی ہو جاتی اور سور قطار بنا کر اس کے ساتھ زنا کرتے ہیں۔ تو بھائی میرے، کیا دوسرے جانور نکاح پڑھ کر یہ عمل سر انجام دیتے ہیں؟
ایک دفعہ ایک پاکستانی اپنی اسپینش گرل فرینڈ کے ساتھ مجھ سے ملنے آیا۔ ہوٹل میں کھانے کے دوران اسپینش لڑکی نے مجھ سے کہا جاوید صاحب بہت عرصے سے ایک سوال میرے ذہن میں ھے اگر آپ برا نہ مانیں تو کیا میں کچھ دریافت کر سکتی ہوں۔ میں نے کہا، ضرور کیجیے۔ کہنی لگی آپ کا یہ دوست شراب بھی پیتا ہے اور میرے ساتھ جنسی تعلقات بھی رکھتا ہے، لیکن سور کے گوشت کو ہاتھ تک نہیں لگاتا، کہتا ہے بہت ہی بڑا گناہ ہے، لیکن ساتھ یہ بھی مانتا ہے کہ شراب اور بغیر نکاح جنسی تعلقات بھی گناہ ہی کے زمرے میں آتے ہیں۔ پھر کہنے لگی، میں چند اور پاکستانیوں کو بھی جانتی ہوں، جو بالکل اسی طرح کرتے ہیں۔ گناہ اور ثواب کے متعلق بھی ان کے یہی خیالات ہیں، کیا آپ بتا سکتے ہیں آخر یہ افراد سور کا گوشت کیوں نہیں کھاتے؟
میں نے کہا اس سوال کا جواب بہت ہی آسان ہے۔ مرد کو کسی عورت کے ساتھ ہم بستی کرنے سے جو لطف آتا ہے وہ کسی طور پر بھی کسی دوسرے عمل سے نہیں آسکتا، یعنی عورت کا کوئی بھی نعم البدل نہیں ہے اس لیے زنا کرتے ہوئے ہم اس بابت گناہ کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ اس طرح جو نشہ شراب پینے سے آتا ہے وہ کسی بھی قسم کے کسی دوسرے مشروب سے نہیں آتا، اس لیے شراب پیتے ہوئے ہم نہیں سوچتے کیونکہ اس کا بھی کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ لیکن سور کا گوشت نہ کھانے پر ہمارا جذبہٴ ایمانی جاگ اٹھتا ہے اور ھم فوری طور پر گناہ اور ثواب کو آگے لے آتے ہیں کیوں کہ سور کے گوشت کا ایک نہیں بہت سے نعم البدل موجود ہیں۔ آپ بکری، گائے، بھینس، اونٹ تیتر یا بٹیر کا گوشت کھا سکتے ہیں۔ یہ تمام گوشت سور کے گوشت سے کہیں بہتر اور لذیذ بھی ہوتے ہیں۔ بس اس لیے تمہارا بوائے فرینڈ شراب اور زنا کا گناہ تو گوارا کرتا ہے لیکن سور کا گوشت بالکل نہیں کھاتا۔
کہنی لگی ایک دن میں نے اس سے کہا ذرا چکھ تو لو اس میں تو کوئی حرج نہیں ھے تو کہنے لگا مجھے اتنے بڑے گناہ پر مجبور مت کرو۔ ’’میں اس گناہ سے بچنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں، تمھیں چھوڑ تک سکتا ہوں، میں کبھی سور کا گوشت نہیں کھا سکتا۔‘‘
پھر مزید پوچھنے لگی، ’’کیا مسلمانوں کے ہاں اور معاملات پر بھی اسی گناہ و ثواب کے معاملات ایسے ہی ہیں؟ اور ہیں تو وہ کون کون سے معاملات اور نظریات ہیں۔‘‘
ابھی اس ہسپانوی لڑکی کے یہی سوال جاری تھے کہ میرے دوست کا جذبہ ایمانی بیدار ہو گیا اور وہ ہم دونوں پر ایک کھسیانے سی نگاہ ڈالتے ہوئے رفو چکر ہو گیا۔ ’’جیسے سور کا گوشت کھانے کے مقابلے میں اس نے اپنی گرل فرینڈ کو چھوڑ کر اپنا ایمان بچانے کا فیصلہ کر لیا ہو۔‘‘