سیاست اور مذہب کارڈ

 ڈاکٹر راحت جبیں

کچھ روز پہلے پنجاب کالج بھلوال کے ایک طالب علم کی رونگھٹے کھڑے کرنے والی خبر نظروں سے گزری۔ جمعہ کی نماز کے بعد اس کے دو کزنز کے مابین سیاسی بحث چھڑی اور بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ نتیجے میں قینچی لگنے سے یہ طالب علم ہلاک ہوگیا۔ یہ ایک معمولی واقعہ ہرگز نہیں ہے بلکہ پچھلی دو دہائیوں میں سیاسی برین واشنگ میں کی گئی آبیاری کا نتیجہ ہے جس کے ثمرات ایوان بالا و زیریں میں آئے روز کے پیش آنے والے سیاسی جھگڑوں سے ہٹ کر مذکورہ بالا اور مسجد نبوی کی حالیہ توہین کے واقعے کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں۔ یہ آگ رکنے والی نہیں، اس میں کئی گھر خانہ جنگی کی صورت میں جل کر تباہ ہونے جارہے ہیں۔

 یہی وہ مقاصد ہیں جن کے تحت پاکستان کی سالمیت کو داؤ پر لگانے کے لیے سالوں سے کام ہو رہا ہے اور جانے انجانے میں عوام کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے۔ نتیجے میں ملک کی فضا میں عجیب سی کدورت رچ بس گئی ہے۔ ملک میں رہنے والے پاکستانیوں کے ساتھ اور سیز پاکستانی بھی انہی متضاد کیفیات کا شکار ہیں۔ نفرت اور غصے کی فضا نے ہر گھر کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سیاست دانوں کے ذاتی مفادات کے چکر میں بھائی بھائی کا دشمن بن چکا ہے۔ ان عوامل نے نہ صرف پاکستانی عوام کو ذہنی اذیت میں مبتلا کیا ہے بلکہ بیرون ملک بھی پاکستان کو جگ ہنسائی کا سامنا ہے۔

عمران خان کی حکومت کے خلاف خط کا متن امریکی سازش ہے یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ سیاسی جماعتیں مختلف ادوار میں امریکہ کی ضرورتوں کے اولاد ہیں جنہیں نظریہ ضرورت کے تحت جنم دے کر مسند اعلی پر بٹھا کر کام نکالا جاتا ہے اور پھر عاق کیاجاتا۔ باقی سیاسی جماعتوں کے علاوہ  ایسا ہی کچھ عمرانی حکومت کے ساتھ بھی ہوا کیوں کہ پی ٹی آئی بھی انہی مقتدر قوتوں کی پیداوار ہے جسے دوسری حکومتوں کے خلاف سازش کرکے برسر اقتدار لایا گیا اور اس کی سیاسی عمر بھی اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کب تک اپنے آقاؤں کا وفادار رہتا ہے۔

تاہم  حالات اب جس مسلسل کشیدگی کی جانب بڑھ رہے ہیں یہ سب سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہے۔ پاکستان کو زیادہ خطرہ سرحد پار دشمن ممالک یا اندرون ملک دہشت گردی سے نہیں بلکہ سول وار کی جانب بڑھتی اس انارکی سے ہے۔

جذبات سے بے قابو عوام اپنے اپنے قائدین کو مسند اعلی پر بٹھانے کے لیے نہ صرف آپس میں دست وگریبان ہیں بلکہ ایک دوسرے کی کردار کشی کے ساتھ ساتھ کفر کے بھی مرتکب ہورہے ہیں۔ شخصیت پرستی کی آڑ میں کچھ لوگوں کا ایمان اس حد تک کمزور ہوچکا ہے کہ نعوذ باللہ اپنے قائدین کا انبیاء کرام علیہ السلام سے موازنہ کرنے کے گناہ گار ہو رہے ہیں۔ کوئی عمران خان کو امیر المومنین کا خطاب دے رہا ہے تو کوئی اسے نعوذباللہ نبوت کی معراج پر کھڑا کرنے سے بھی نہیں چوک رہا، اور کوئی اسے حضرت یوسف علیہ السلام سے بھی زیادہ حسین قرا دے کر توہین کا مرتکب ہورہا ہے۔ جب کہ کچھ لوگ تو عمران خان کی شخصیت کے حصار میں اس حد تک گرفتار ہوچکے ہیں کہ وہ ملحد ہونے کے لیے عمران خان کی صرف ایک کال کے منتظر ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ محترمہ زرتاج گل صاحبہ  موسمیاتی تبدیلی کی اصل وجہ عمران خان کو قرار دیتی ہیں اور خود عمران خان بھی تکبر میں ایسی گستاخیوں کا مرتکب ہوچکا ہے۔ کم و پیش ایسی ہی صورتحال دیگر پارٹیوں میں بھی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اس کی واضح مثال رانا ثناءاللہ کا قادیانیوں کو مسلم قرار دینے والا بیان اور  مفتاح اسمعیل کا اسلامی آیت کی توہین کے حوالے سے بیان اہم ہے۔ اسے ہماری بد بختی کہیے کہ ہم  اللہ پر بھروسہ کرنے کے بجائے ایسے منافق اور بے کردار لوگوں پر انحصار کرنے لگے ہیں جن کے قول و فعل میں شدید تضاد ہے۔

عوام کا جذبہ، جوش و خروش اور گالیوں کا تبادلہ ایک طرف اس بات کا غمازی ہے کہ مسلم لیگ، جمعیت اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی آخری امید ان کے قائد ہیں جب کہ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کا انتہا پسند رویہ اس سوچ کو ہوا دیتا  ہے کہ عمران خان ہی آخری امید ہیں۔ یعنی بقول ان کے ماننے والوں کے ملک میں دو ہی قیمتی اثاثے ہیں ایک ایٹم بم اور ایک عمران خان۔ ان سب کا بس نہیں چلتا کہ اپنے اپنے لیڈروں کی مورتی بنا کر ان کی پوجا کریں اور مرنے کے بعد ان کی لاشوں کو فرعون کی طرح حنوط کرکے ممی کی شکل دے دیں ۔ کیوں کہ یہی آخری امید ہیں تو پھر ان کے بعد تو دنیا تہس نہس ہوجائے گی۔ جب کہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کبھی بھی انسان سے مایوس نہیں ہوتا اور دنیا میں آنے والا ہر نیا بچہ ایک نئی امید ہوتا ہے نہ صرف اپنے خاندان کے لیے بلکہ ملک و قوم کے لیے اور مستقبل میں امام مہدی کی آمد بھی اس بات کی مکمل دلیل ہے۔

کردار اور اعمال سے قطع نظر یہاں سب سے زیادہ تشویشناک صورتحال لوگوں کا منفی رویہ ہے جو شخصیت پرستی میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ  ان کی زبان ان کے کنٹرول میں نہیں رہی۔ ان منفی رویوں نے آپس میں محبتوں کی جگہ نفرتوں کو ہوا دی ہے۔ جب کہ اول تو یہ بھی کسی نبی، امام یا صحابی کا وطیرہ نہیں رہا ہے کہ وہ خود پسندی کی انتہا کو چھولے دوئم جس پیغمبر پر بھی وحی اتاری گئی اس نے نبوت سے پہلے بھی نہایت پاک اور شرم و حیا والی زندگی گزاری۔ انبیائے کرام علیہم السلام کی زندگی منافقت سے عاری، عاجزی، عفت، فکر اور عمل کا مجموعہ تھی۔ جبکہ کے موجودہ دور کے لیڈر جن کی جنگ کرسی سے شروع ہوکر کرسی پر ختم ہوتی ہے ان کا شرم و حیا سے عاری داغ دار ماضی اور حال سب کے سامنے عیاں ہے۔ ان بدکردار، کاذب اور مفاد پرست لوگوں کو انبیائے کرام اور خلفائے راشدین سے ملا کر ہم نہ صرف بےادبی بلکہ کفر کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں اس حوالے سے ہمیں اپنا ایمان تازہ کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔

منافقت کی انتہا کہیے کہ مذہب کو یہ صرف سیڑھی کے طور پر استعمال کرتے ہیں  جب حقیقی معنوں میں اسلام کے لیے آواز اٹھانے کی بات آتی ہے تو مصلحت کی آڑ میں مجرمانہ خاموشی دیکھنے کو ملتی ہے اور اسلامی بلوں کے پاس کرانے کے لیے اسمبلی کورم کبھی بھی پورا نہیں ہوتا جب کہ اسلام مخالف بل پاس کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو حکمران اور اپوزیشن جماعتیں سارے مفاد بالائے طاق رکھ کر ایک ہوجاتے ہیں اور  غیر اسلامی بلوں کو مہینوں لٹکانے کے بجائے دنوں میں پاس کرتے ہیں۔

ہر لیڈر نے اپنی پارٹی کے لیے منافقانہ دستور وضع کیا ہے جب فائدے کی بات آتی ہے خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ جیسے ہی ان کو دیوار سے لگایا جاتا ہے ان کے سوئے ضمیر جاگ جاتے ہیں اور کارکنوں کا استعمال اسی منافقت کی بناء پر ہوتا ہے ۔ اپنی کرسی کو خطرہ لاحق ہو تو کارکنوں کو  ہڑتال کی کال دے کر ملکی معیشت کو جام کیا جاتا ہے۔ جب کہ برسر اقتدار آکر ہر کوئی پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت اور مہنگائی کا ذمہ دار دوسرے کو قرار دے کے خود راہ فرار اختیار کرتا ہے۔ ساتھ ہی اصلاحات کے نام پر چوری اور ڈاکے ڈال پاکستان کی معاشی کمر مزید توڑ دیتا ہے۔ اگر سیاست دانوں کی یہی ڈگر رہی تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان بھی سری لنکا کی طرح مکمل دیوالیہ ہو جائے گا۔

جب تک سیاستدانوں کو اپنے مفادات ملک سے بڑھ کر عزیز رہیں گے وہ اسی طرح باری باری ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے مگر عوام کو بھی اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہونگی وہ پارٹی قائدین کے ہاتھ کٹھ پتلی بننے کے بجائے دماغ سے سوچیں کہ کہیں وہ غلطی پر تو نہیں۔