”شارٹ کٹ“ کا معاشرہ

 آصف خان

بات چاہے کسی جرم کی روک تھام کی ہو رہی ہو یا معاشرے میں موجود کسی اور خرابی کے مستقل حل کی تلاش کی، ہمارا معاشرہ روزِاول سے ہر چھوٹے بڑے مسئلے کے حل کے لیئے کسی ”شارٹ کٹ“ کی راہ دیکھتا آرہا ہے۔ یہاں پر ایک کمسن بچی یا بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کا واقعہ پیش آئے تو آپ کو”ریپ کی سزا موت“ جیسے جذباتی جملوں کا تبادلہ کرتے لوگ نظر آئیں گے۔ کسی گلی محلے میں کوئی معمولی سا چور پکڑا جائے تو بھی پورا معاشرہ  ”چور کے ہاتھ کاٹ دو“ جیسے جملوں کی گردان سے گونج اٹھتا ہے۔ یہی وہ شارٹ کٹس ہیں جس نے معاشرے کو مزید گھٹن زدہ اور بے حس بنا دیا ہے۔ یعنی معاملہ چاہے انتہائی سنگین قسم کا کیوں نہ ہو ہم مسائل کی وجوہات اور محرکات کو ڈھونڈنے اور اُن کے مستقل حل تلاش کرنے کے بجائے ہمیشہ جذبات کو درمیان میں حائل کرکے کسی شارٹ کٹ کی طرف دیکھتے ہیں، اور ساتھ ساتھ یہ اُمید بھی لگائےبیٹھے ہوتے ہیں کہ ایسے شارٹ کٹس ہمارے معاشرے کے لیئے بھی مفید ثابت ہوں گے۔

اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک طرف آپ دہشت گردی کو عسکری آپریشن کے ذریعے   ختم تو کرنا چاہتے ہیں، لیکن دوسری طرف معاشرے میں موجود دہشت گردانہ سوچ، ذہنیت اور دہشت گردی کی وجوہات پرتوجہ نہیں دیتے۔ تو بات یہ ہے کہ جب تک دہشت گردی سے جڑی ذہنیت قائم ہے دہشت گردی کے واقعات ہوں گے۔ ابھی پچھلے دنوں لاہور موٹروے پر ایک خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کا واقعہ پیش آیا۔ اس واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ مذمت کے ساتھ ساتھ اس واقعے میں ملوث مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے۔ اس واقعے کے پیش آنے کے بعد ہمیشہ کی طرح اس بار بھی جذباتی جملے بازی سننے کو ملی۔ کوئی ریپسٹ کے لیئے ”سزائے موت“ تجویز کررہا ہے تو کوئی اُسے ”نامرد“  بنانے پر بضد ہے۔ اس تمام تر صورت حال میں کسی نے اس بات کی طرف توجہ نہیں دی کہ ہمارے ہاں ایسے واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں؟ کیا سخت سزاؤں سے معاشرے میں موجود جرائم کم یا ختم ہوئے ہیں؟ کیا ہمارے ہاں ایسے واقعات کے پیش آنے کی وجہ صرف اور صرف سخت سزاؤں کی عدم موجودگی ہے؟

انہی سوالوں سے جڑے دیگر سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لیئے ہمیں ان ممالک اور معاشروں کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے جہاں پر پھانسی اور دیگرسخت سزاؤں کی عدم موجودگی کے باوجود جرائم کی شرح بہت کم ہے اور جیلیں خالی پڑی ہوئی ہیں۔ غرض یہ کہ تعلیم و تربیت سےعاری معاشروں میں سخت سزاؤں کی موجودگی کے باوجود جرائم کم نہیں ہوتے۔ یعنی مسئلہ سزاؤں کی عدم موجودگی کا نہیں بلکہ کچھ اورہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شدت پسندی کو شدت پسندی سے نہیں روکا جاسکتا، جب تک شدت پسندی کی وجوہات سامنے نہیں آتی، جب تک معاشرے میں موجود شدت پسندانہ سوچ کو تعلیم و تربیت کے ذریعے ختم نہیں کیا جاتا، جب تک اخلاقی اقدار کوپروان نہیں جاتا، تب تک کے لیئے کوئی بھی شارٹ کٹ اختیار کرنا مزید تباہی کے سوا اورکچھ بھی نہیں۔