شاید ہی کوئی میرے جیسا بھٹو کا دیوانہ تھا!

شہزاد فرید

اگر آپ ایک کروڑدرخت نہیں لگا سکتے تو عوام کے سامنے ایسی بکواس تو نہ کریں، آپ بجلی نہیں دے سکتے تو کیوں چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ پختونخواسارے پاکستان کو بجلی دے سکتا ہے، سو دن کا منصوبہ تو بعد کی بات ہے پہلے اس منصونے کا اعادہ تو کروالیں جو نوے دن کا تھا۔ سیتا وائٹ، یہودی، نیب، پولیس، تبدیلی، بد تمیز!  ڈاکٹرسید عامر سہیل صاحب دلائل سے عمران خان کے جھوٹے وعدے  مجھے یاد کرا رہے تھے، وہ اپنے بارے میں فرمایا کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے کے معاملے میں وہ انتہائی جاہل واقع ہوئے ہیں۔ میں نے کہا ، روٹی کپڑا ، مکان اور تھرپارکر۔۔۔جمہوری ایوب  کا لاڈلا جمہوریت پسند۔۔۔مجیب کی حق تلفی۔۔۔۔لینڈ رفارمز او ر وہ بھی پنجاب میں۔۔۔مذہب ، جمہوریت اور اشتراکیت کا بے تکا شیرازہ۔۔۔یونیورسٹی کی جگہ گالف گراؤنڈ۔۔۔کراچی ، بحریہ ٹاؤن اور ملک ریاض کی ہزاروں ایکڑ زمین۔۔۔فلا ں فلاں فلاں۔۔۔!

ابے ہم تو ہیں ہی گندے!  عامر صاحب نے میری باتوں کو ہَش ہَش کیا۔

بات تو اس کی ہونی چاہیے جو کہتا ہے کہ ہم پاک اور صاف ہیں۔ نشستند، گفتند، کے بعد ہمیں یاد آیا کہ زمین خریدنی ہے،  برخاستند ۔

ہم زمین خریدنے کی تلاش میں چل پڑے۔ یہ کہانی اس شخص  کی ہے جو ہمیں اس تلاش میں ملا ۔

میں نے اپنی مردم شناس، خانم بیزار موٹر سائیکل پہ  عامر صاحب کو سوار کیا اور رقص کے اصول سے بے بہرہ ملتانی مٹی،  جنت کی ٹھنڈی ہواؤں سے نا آشنا ان مٹ گرمی اور   قیاس شدہ منزل  بطور رختِ سفر ہمراہ لئے چل پڑے ، ہمارا مقصد سیاسی سفاری بالکل بھی نہیں تھا  ،زمین  کی تلاش تھی ، احمد حسن ڈیہڑ کے حلقے میں وارد ہوئے جن کے سیاسی کارکن آج کل عمران کے گھر کے باہر دھرنہ دئیے ہوئے ہیں،  جس جگہ ہم تھے وہ دیہات ہی تصور ہوتی ہے، ہم نے رستے میں ایک ادھیڑ عمر شخص سے  ایک کالونی  کی سمت دریافت کیا ، اس نے تین چار جہات ہاتھ گھمایا جو صراطِ مستقیم کے منافی تھا ، زمینی رستہ صراطِ مستقیم ہو تو مذہبی رغبت کے بغیر بھی طے ہو جاتا ہے۔ابھی ہم چند قدم آگے بڑھے ہی تھے کہ ہمارے رہبر نے ہمیں واپس کھینچتے ہوئے کہا کہ اگر آپ زمین خریدنا چاہتے ہیں تو وہ یہاں بھی مل سکتی ہے، ہم اس کے ہمراہ ہولیئے ۔ راہ چلتے عامر صاحب نے رہبر سے دریافت کیا کہ یہا ں سیاسی صورتِ حال کیا ہے؟

سائیں،ایں دفعہ  اساں تاں  PTIکو ووٹ ڈے سوں (جنابِ من، اس مرتبہ تو ہم PTIکو ہی ووٹ دیں گے)، رہبر نے فوراً جواب دیا۔PPP نے ہمیں کچھ نہیں دیا، یہ سڑک دیکھ رہے ہیں یہ بھی ہم نے اپنے پیسوں سے بنوائی ہے، کوئی فائدہ نہیں ان کا۔اچھا یہ بتائیں کہ گیلانی کے بنائے ہوئے سٹرکوں اور پلوں کےبعد  اب آپ کی زمینوں کی قیمت کتنی بڑھ   گئی ہے ؟ عامر صاحب نے ایک اور سوال داغا۔ یہ سوال تو گویا ا س شخص کے سیاسی رخموں کو مسلنے کے مترادف تھا، اس نے ہمیں رستے میں ہی روک لیا ،  اچھا یہ بتائیں میرے لئے پل بنائے ہیں، گیلانی گھر تک باآسانی پہنچ جائے اس لئے بنائے ہیں، اچھا، تین چار مرلے والے کی کیا قیمت، یہاں کے دوڈیروں کی زمینوں کے قیمت بڑھی ہے، اور ایسی بڑھتی قیمت کا کیا فائدہ ، غریب آدمی کو تو پھر بھی زمین بیچنی ہی پڑ ھ رہی ہے نا، سائیں ، ہمیں سڑکیں نہیں چاہیئں، ہمیں پُل نہیں چاہیئں!میں نےعامر صاحب کی طرف مڑ کے دیکھا  اور طنزاً مسکراتے ہوئے کہا ، شاہ جی اسے کہتے ہیں تبدیلی۔۔۔رہبر نے اپنی بات جاری رکھی ، میں آپ کو استاد جی سے ملواتا ہو، وہ آپ کو بتائیں گے اصل کہانی۔ زمین خراشی کے بعدوہ ہمیں ایک پرچون کی دکان پر لے گیا، وہاں چار پانچ لوگ اور آگئے ، اب قیمتوں کا مقالمہ ایک طرف رکھ کہ ہم سیاست سماع خراشی میں مصروف ہوگئے ، چند بے تکی باتوں کے بعد ایک نحیف، ضعیف العمر شخص دکان میں داخل ہوئے ، چہرہ اچاٹ  معلوم پڑتا تھا، بندِ قُبا کُھلے ہوئے، درمیانہ قد ، دھیمی آواز ، بھٹو کا دیوانہ ، گذشتہ دیوانہ، سب لوگ انہیں ماسٹر صاحب کے لقب سے پکار رہے تھے، معزز معلوم ہوتے تھے، وہ بیٹھ گئے، گفتگو کا دوسرا دور چلا، 2023 میں ، میں پھر اسی جگہ آؤں گا، اور آپ سب پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں گے، شاہ صاحب نے زور دیا، میرے بات سنو، ماسٹر صاحب نے توجہ چاہی ،شاید ہی میر جیسا بھٹو کا کوئی دیوانہ ہو،میری کئی مرتبہ بھٹو سے ملاقاتیں ہیں، وہ میرے پاس یہاں بھی آیا ہے، جب بھٹو کو پھانسی ہوئی اور مجھے یہ بات یاد آتی تو میں راتوں کو اُٹھ کےروتا تھا، کئی گھنٹے روتا تھا۔دل سے غم نہیں جاتا ، مگر اب ا س جماعت میں وہ نظریہ نہیں، وہ لیڈر نہیں، جس کے لئے میں ان سے جڑا ہوا تھا، آپ نے اس جماعت سے آخر کیوں قطع تعلقی کی؟

میں انہیں مزید کریدا۔ اگرمسلمان ہے تو جس دور میں آپ نماز پڑھ رہے ہیں اور جس میں نہیں پرھ رہے،دونوں میں سے کونسا بہتر ہوگا، ماسٹر ایک آنکھ اور دونوں کانوں سے میرا جوان کے منتظر تھے، میں نے کہا وہی جس میں نماز پڑھ رہے ہوں گے،جواب سنتے ہی  ماسٹر صاحب کا چہراتبسم زدہ ہوگیا جس میں دکھ اُبھر اُبھر آتا، وہ تھوڑا آگے بھڑے اور میرے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے بولے شاباش، شاباش ،شاباش،نظریہ پہ قائم رہنا، سیاسی نماز قائم کرنے کے مترادف ہوتا ہے،  بھٹو لیڈر تھا،نظریہ تھا، اچھا بی بی بھی لیڈر تھی، لیکن زرداری، یہ کہاں سے آگیا ، جو اس شخص نے کیا وہ میری جماعت کا نظریہ تو نہیں تھا، برباد کر دیا،نماز با جماعت تو دور کی بات قضا بھی ادا نہیں کی جاسکتی ،  اس علاقے میں اکثریت یا اس سے بھی زیادہ لوگ پیپلز پارٹی سے منسلک تھے، مگر اب نہیں، بلاول کہاں سے بھٹو ہوسکتا ہے؟ ایسی بہت سی باتیں ۔۔۔جماعت کو ہائی جیک کیا ہے انہوں نے۔۔ بھٹو چاہے زندہ ہو مگر نظریہ مر چکا ہے،میں اب اس جماعت  کے ساتھ نہیں۔یہ کہتے ہوئے ماسٹر جی نے اپنا سر جھکا لیا۔

ان کی دونوں آنکھوں میں حرکت متوازن نہیں تھی، میں نے غور سے دیکھا تو ایک آنکھ بھُج چکی تھی اور دوسری ساکن تھی، ان کی ایک آنکھ کو بھٹو کا غم کھا گیا اور دوسری عمران خان کی امید سے روشن تھی، یہ بات مجھے اس وقت پتا چلی جب انہوں نے مجھے بتایا کہ موجودہ سیاسی رہنماؤں میں صرف عمران خان ہی لیڈر ہے۔ میری نظریں ماسٹرصاحب کا طواف کرتی اور انکل اجمل کا جملہ کے “کانٹوں پہ چلنا موقف پہ چلنے کی نسبت آسان ہے”میرے دماغ میں لبیک لبیک کی صدائیں اٹھاتا۔ میری بات سنیں، ساتھ بیٹھے ایک ادھیڑ عمر شخص نے عامر صاحب کو متوجہ کیا۔ یہ بتائیں کہ بی بی پر نواز شریف نے جو ظلم کئے وہ مفاہمت طلب تھے  جو زرداری نے ن لیگ سے ہاتھ ملا لیا؟ وہ کام جو زرداری کو ن لیگ کے ساتھ کرنا چاہئے تھا عمران خان کر رہا ہے، یہ اب نہیں چلے گا بھائی ، یہ بندر بانٹ ، یہ آپسی چھُپا چھُپی، میل جول، مذاق بنا رکھا ہے نواز اور زرداری نے۔ میرے والد صاحب بھی پیپلز پارٹی کے کارکن تھے ، میں بھی پچھلے الیکشن میں اسی جماعت کا کارکن تھا، یہ سب لوگ اسی جماعت کے کارکن تھے، مگر کیا ہوا، صوبہ بنا دیں گے، بنا کیا؟ صاف پانی دیں گے، دیا کیا؟ کسان کو سہولت ہوگی ، ہوئی کیا؟ یہ گیلانی کے پُلوں کا ہم نے کیا کرنا ہے، نا بی نا۔عامر صاحب نے پھر وہی بات دوہرا ئی، 2023 میں آپ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں گے۔۔۔اس شخص نے اپنی جاری رکھی،  یہ بوسن خاندان نے تو مذاق بنا رکھا ہے، حق تلفی کرتے ہیں، اور گیلانی فیملی، پتا نہیں کہاں سے سید بن گئے ، بس جانے دیں اب، ویسے ان کی آپسی لڑائیں ہی ختم نہیں ہوتی ۔ نشتند ، گفتند ، برخاستند۔

ہم دکان سے باہر نکلے، ایک شخص اور ملا ، ہمارے رہبرنے عامر صاحب سےاس کا تعارف کچھ یوں کرایا ، سائیں ، ایوی PPPدے رلے ہن، تُآڈی جماعت ہاوی ، (جنابِ من ، یہ بھی PPPکا ہے، آپ کی جماعت کا ہے)،  وہ تعارف کراتے ہوئے میرا ہاتھ زور زور سے دباتا گیا اور طنزاً ہنستا  رہا، عامر صاحب نے وہاں پھر دوہرایا ، 2023 میں  یہ سب PPPکو ووٹ دیں گے۔ آپ بھی کمال کرتے ہیں شاہ صاحب! یہ اس مرتبہ بھی دیں گے، اُس شخص نے شاہ جی کی بات کاٹی۔

میں نے اُسی وقت اپنے رہبر کی جانب نظر گھمائی ، جو یہ بات سن کر کھسیانی ہنسی ہنس رہا تھا،اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے مجھے آنکھ ماری ،  میںPPP نے ووٹ کی رائے کے حوالے سے ایک نظر دکان  میں ڈالی، ایک روسی علامت کا سا ہاتھ دکان کے کاؤنٹر سے  اُبھرا ، او ر معکوس پنڈولم کی طرح ہلا ، جو نہیں کی علامت تھا۔