صرف ہدایت اللہ لوہار ہی نہیں شہری حقوق اور سندھ حکومت بھی لاپتہ ہیں
مہناز اختر
١٢ جنوری کی شام کو جیسے ہی میں انٹرنیٹ سے مربوط ہوٸی تو انباکس پر پیغاموں کا ڈھیر میرا انتظار کررہا تھا۔ پریشانی اس بات پر محسوس ہوٸی کہ سارے پیغامات دوستوں کے تھے اور سب کے سب سسّی لوہار اور سندھی لاپتہ افراد کے حوالے سے لکھے گۓ میرے گزشتہ مضمون سے متعلق ہی تھے۔ کسی میں مشورہ اور کسی میں شکایت تھی۔ کچھ دوستوں نے کہا کہ ادارے کسی کو یونہی نہیں پکڑتے۔ کچھ مہاجر دوستوں نے شکایت کی کہ آپ نے مہاجر لاپتہ افراد اور ماوراۓ عدالت قتل کی بات کبھی نہیں کی پر آج سندھی قوم پرستوں کی حمایت میں پورا مضمون لکھ ڈالا۔ آپ فخر سے خود کو مہاجر کہتی ہیں مت بھولیں کہ سندھی قوم پرست مہاجروں سے نفرت کرتے ہیں اور مہاجروں پر کوٹہ سسٹم کی مار کے ذمہ دار سندھی سیاستدان ہیں۔ انہوں نے ہم سے کبھی ہمدردی نہیں کی بلکہ ہمیں ہمیشہ باہر والا، دہشت گرد اور ٹارگٹ کلر کہا ہے، ہمارے خلاف بدترین آپریشن پر خوشیاں مناٸیں ہیں، اور کسی نے کہا کہ لاپتہ افراد یا سندھو دیش کی بات کرنے والے علیحدگی پسندوں کی حمایت آپ کے لیۓ خطرناک ثابت ہوگی ادارے آپ جیسے حمایتیوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔
اس دوران فیس بک نے اطلاع دی کہ آج سسّی لوہار کا جنم دن ہے۔ میں پچھلے مضمون کے حوالے سے سسّی سے مسلسل رابطے میں تھی اس لیۓ جنم دن کی مبارک باد دینا تو بنتا تھا۔ سسّی یا سورٹ جیسی بہادر بیٹیوں کے جنم کا دن واقعی مبارک ہے اور مبارک بادی کے مستحق انہیں جنم دینے والے والدین ہیں۔ اسی اثنا میں سسّی کو لاٸیو دیکھا۔ سسّی کی والدہ رینجرز کے اہلکاروں کو اللہ کا واسطہ دے رہی تھیں۔ ماں بیٹیاں رینجرز کی گاڑی کے آگے یوں دیوار بن کر کھڑی تھیں جیسے کہہ رہی ہوں کہ مارنا ہے تو ایک بار ہی مار دو۔ سسّی کے اٹھارہ سالہ بھاٸی سَنگھار کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر رینجرز کی گاڑی میں بٹھا دیا گیا تھا۔ سسّی کی والدہ کا آنسوٶں میں گندھا ہوا یہ جملہ ”مت لے جاٶ تم ہمارے بچوں کو لے جاتے ہو پھر انکی تشدد زدہ لاشیں ملتی ہیں میرا شوہر پہلے ہی لاپتہ ہے،اتنا ظلم مت کرو اللہ سے ڈرو“ میری سماعتوں میں محفوظ ہوچکا ہے۔ خیر ماں بیٹیوں نے بھرپور احتجاج کیا اور رینجرز اہلکاروں نے ہار مان لی اور سَنگھار کو لیجانے میں ناکام رہے۔
سسّی اور سورٹ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی عام سی لڑکیاں تھیں لیکن ریاستی جبر نے انہیں ”ہیرو“ بنا دیا ہے۔ یہ دونوں آج کی لڑکیاں ہیں ٹیکنالوجی کا استعمال جانتی ہیں۔ جب ماں بیٹیاں سچل تھانے میں پورے واقعے کی شکایت درج کروانے گٸیں تو وہاں بھی انہوں نے پوری کارواٸی کو لاٸیو کردیا۔ اچھا ہوا کہ ہم نے سچ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور سمجھ گٸے کہ پولیس والے ”اداروں“ کے مزراعے ہیں۔ سورٹ اور اسکی والدہ نے بڑے تحمل سے تمام واقعہ پولیس اہلکار کو سنایا اور کہا ” آپ ہماری مدد کریں، ہمیں پروٹیکٹ کریں، بتاٸیں کہ ہم کہاں جاٸیں“ (معاملہ غور طلب ہے، فوجی عدالتوں کے حامیان کو اس پر غور کرنا چاہیے) ۔
خیرشکایت درج نہ ہوٸی اور ثابت ہوا کہ رینجرز کسی بھی شہری کو صرف شک کی بنیاد پر سرعام گھسیٹے ہوۓ اپنے ساتھ لے جاسکتی ہے اور وقوعے کی بنیاد پر عوام کہے گی ”کچھ تو کیا ہوگا“۔ پاکستان میں شہری حقوق ”جوتے کی نوک“ پر ہیں۔ ایسے میں مجھے اٹھارویں ترمیم یاد آرہی ہے ” سستے اور جلد انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جاۓ گا نیز غیر جانبدارانہ ٹرائل اور معلومات تک رساٸی عوام کے بنیادی حقوق میں شامل ہیں“ لیکن سوال یہ ہے کہ عوام کی عزتِ نفس کی حفاظت کو یقینی کون بناۓ گا؟
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ رینجرز کسی بھی کاروائی سے قبل علاقے کے تھانے کو پیشگی اطلاع دیتی یا ہم اگر بہت ہی مہذب قوم ہوتے تو پھر کسی بھی شک وشبہ پر پولیس یا رینجرز مطلوبہ شخص کو تھانے طلب کرتی ، تفتیش کرتی اور واپس بھیج دیتی، اللہ اللہ خیر سلا، یوں محلے داروں کے آگے آنکھوں پر پٹی باندھ کر گھسیٹا تو نہ جاتا اور عزت والوں کی عزت نہ اچھالی جاتی۔ کہتے ہیں علاقے کا ایس ایچ او علاقے کا چوہدری ہوتا ہے اور اسے سب خبر ہوتی ہے پر سچل تھانے کے اہلکاروں کی معصومیت دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ خبروں کے حصول کے لیۓ انکا انحصار بھی پاکستانی مین اسٹریم میڈیا پر ہے جہاں کسی کو ہدایت اللہ لوہار اور سندھی لاپتہ افراد کے بارے میں کوٸی معلومات نہیں ہے۔ تاہم سندھ رینجرز نے ١٥ جنوری کی پریس ریلیز میں ایسے کسی بھی واقعے کا انکار کیا ہے اور وضاحت کی کہ رینجرز اس رات خالد زمان نامی شخص کو گرفتار کرنے پہنچی تھی جس پر بھتہ خوری ، غیر قانونی ہتھیار رکھنے اور قتل کے مقدمات درج ہیں لیکن یہ شخص موقع سے فرار ہوگیا۔ مزید یہ کہ اگر سسّی لوہار والے مٶقف کی ویڈیو کسی کے پاس موجود ہے تو وہ رینجرز کو دے۔ باوجود اسکے کہ مضمون طویل ہوجاۓ گا میں آخر میں سندھ رینجرز کا پریس ریلیز نقل کردونگی تاکہ معاملات سمجھنے میں آسانی ہو۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ پورے واقعے کی لاٸیو ویڈیو سسّی لوہار کی فیس بک وال پر موجود ہے حیرانی ہے کہ پریس ریلیز جاری کرنے سے پہلے وہ ویڈیو کیوں نہ دیکھی گٸی۔ دوسری بات یہ کہ اگر مان لیا جاۓ کہ رینجرز خالد زمان نامی مفرور ملزم کو ہی گرفتار کرنے شمائل اپارٹمنٹ پہنچی تھی تو یہ کیسی ناقص اطلاع تھی کہ انہوں نے سَنگھار کو اٹھالیا۔ سَنگھار خوش قسمت تھا کہ سسّی اور سورٹ اسکی بہنیں ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا کا استعمال کرکے ہزاروں افراد کو اس واقعے کا گواہ بنالیا اور طویل احتجاج کرکے سَنگھار کو لیجانے کی کوشش ناکام بنا دی۔ فرض کریں کہ سَنگھار کی جگہ کوٸی اورمظلوم لڑکا وہاں ہوتا تب تو آپ اسے دہشتگرد قرار دے ہی چکے تھے یا پھر وہ بھی نقیب اور انتظار کی طرح تاریک راہوں پر مارا جاتا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر سوشل میڈیا پر یہ واقعہ محفوظ نہ ہوتا تو دنیا آپکے پریس ریلز پر بھروسہ کرکے اس خاندان کو کب کا جھوٹا قرار دے چکی ہوتی۔ کیا پاکستان کے اعلیٰ ترین اداروں کی تحقیقات کا نظام اس قدر ناقص ہے؟ اور اب آپ عوام کو کیسے یقین دلاٸیں گے کہ رینجرز کی تحویل میں موجود سارے افراد واقعی مطلوب ہیں یا پھر انکے ساتھ بھی سَنگھار جیسا معاملہ ہوا ہوگا؟
جسقم ،جسمم اور VMP کے ذریعے سندھی حضرات اندرون سندھ جگہ جگہ احتجاج کی کالیں دے رہیں ہیں۔ سسّی اور سورٹ لوہار پریس کلب کے باہر بیٹھ بیٹھ کر تھک گٸی ہیں۔ اسی احتجاجی مظاہرے میں ایک خاتون پنجاب اور پنجابی بالادستی کو گالیاں دیتے ہوۓ جیۓ سندھو دیش کا نعرہ لگا رہی تھیں۔ میں قوم پرستوں سے نظریاتی اختلاف رکھتی ہوں پر سندھی لاپتہ افراد کے حوالے سے سسّی کی جدوجہد کی دل سے عزت بھی کرتی ہوں اور سسّی کے ساتھ ہوں لیکن کراچی سے تعلق کی بنیاد پر سندھی قوم پرست حضرات سے یہ پوچھنے کا حق بھی رکھتی ہوں کہ اس معاملے میں سندھ حکومت کا دامن پاک رکھنے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے؟ سندھیوں کی ”نماٸندہ جماعت“ کہاں غاٸب ہے؟
سندھو دیش کی سیاست کو لاپتہ سندھی افراد کے معاملے سے کچھ وقت کے لیۓ الگ کرکے دیکھیں اور سندھ سے باہر آکر ایک بڑی تصویر کا حصہ بننے کی کوشش کریں۔ کیونکہ پشتون، بلوچ، پنجابی، مہاجر سبھی لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی اور سندھی رہنما عشروں سے سندھ کی حکومت پر قابض ہیں۔ سسّی کی رہاٸش گاہ سے وزیراعلی ہاٶس اور بلاول ہاٶس کا فاصلہ تقریباً ایک گھنٹے کا ہے اگر پریس کلب کے بجاۓ آپ لوگ یہاں احتجاج کریں اور مستقل احتجاجی کیمپ لگاٸیں تو شاید آپکے احتجاج کو زیادہ توجہ ملے اور اس معاملے میں سندھ حکومت اور وزیراعلی کو بھی تھوڑی شرم آۓ۔
سندھ رینجرز کا جاری کردہ پریس ریلیز:
ہیڈکوارٹرز پاکستان رینجرز(سندھ)
مورخہ15جنوری 2019 ء
پریس ریلیز
مورخہ 12 جنوری 2019 کو وائس آف مسنگ پر سنزکے چندنمائندوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو اَپ لوڈکی گئی اور بعد ازاں 15جنوری 2019کو ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی خبر کی صورت میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان رینجرز (سندھ )کی جانب سے سورت لوہار کے بھائی سنجر لوہار نامی شخص کوگرفتار کیا گیا ہے جو کہ حقائق کے قطعی منافی ہے ۔ یہ واضح کیا جاتا ہے کہ پاکستان رینجرز(سندھ) کی جانب سے 12جنوری 2019کو سورت لوہار کے گھر پر کو ئی بھی چھاپہ مار کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی سورت لوہار اوراُن کے اہل خانہ کو زدو کوب یا ہراساں کیاگیا ہے ۔ ویڈیو میں نظر آنے والی سندھ رینجرزکی موبائل کو مورخہ 12 جنوری 2019کی شام شمائل کمپلیکس نزد موسمیات کراچی میں خالد زمان نامی شخص کی گرفتار ی کے لیے بھیجوایاگیا تھا جو کہ انٹیلی جنس معلومات کے مطابق شمائل کمپلیکس کے علاقے میں ایک اور نامعلوم شخص کے ساتھ گلی میں موٹر سائیکل پر موجود تھا لیکن سندھ رینجرز کی موبائل کی موجودگی کی اطلاع ملتے ہی خالد زمان شمائل کمپلیکس کے علاقے سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔خالد زمان غیر قانونی ہتھیار رکھنے ،بھتہ خوری اور قتل کے مقدمات میں مفرور ہے جس کے خلاف ایف آئی آرنمبر 110/112 u.s 302, 148, 149, 109 and 337 H/2PPC تھانہ واڑا ڈسٹرکٹ قمبر شہداد کوٹ میں درج ہے ۔واضح رہے 12جنوری 2019کو پاکستان رینجرز (سندھ )نے شمائل کمپلیکس کے علاقے میں کسی بھی گھر کے اندر داخل ہو کر کوئی کارروائی نہیں کی ۔علاوہ ازیں اس کارروائی کے دوران سنجر لوہار کو پاکستان رینجرز (سندھ ) کی جانب سے نہ ہی گرفتار کیاگیا اور نہ ہی وہ اس وقت سندھ رینجرز کے زیر حراست ہے ۔اس واقعہ کے دوران پاکستان رینجر ز (سندھ ) کی جانب سے کسی بھی قسم کے تشدد یا خواتین سے بدسلوکی کے ثبوت یا ویڈیوز اگر موجود ہوں تو انہیں ہیڈ کوارٹرز پاکستان رینجرز (سندھ ) کو ارسال کیا جا سکتاہے۔
ترجمان سندھ رینجرز
PRO__________