ضلع دیامر کے حدود میں گولڈ مائننگ
فخر عالم قریشی
پاکستان بشمول گلگت بلتستان میں ضلع دیامر وہ واحد علاقہ ہے جہاں کے جنگلات اور معدنیات مقامی لوگوں کی ملکیت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیامر کے حدود میں معدنیات نکالنے اور گولڈ مائننگ کیلئے حکومت کو سب سے پہلے عوام کی اجازت درکار ہوگی۔ اگر حکومت عوام کی اجازت کے بغیر یہاں کی معدنیات اور جنگلات پر قبضہ کرےگی تو 1952 کے معائدے کی کھلی خلاف ورزی ہوگی۔
اس امر حقیقی سے انکار ممکن نہیں کہ دیامر میں بےشمار معدنی وسائل موجود ہیں۔ جس میں کئی اقسام کی معدنیات شامل ہیں،اور دیامر کے جن علاقوں میں قیمتی معدنیات پائی جاتی ہیں ان علاقوں کو حکومت نے قبضے میں لے رکھا ہے۔
تاہم گزشتہ دو سالوں سے دیامر کے حدود میں درجنوں مقامی لوگ دریائے سندھ کے کنارے بھاری مشینریوں(ایکسویٹر) کے ذریعے سونا تلاش کررہے ہیں۔ جس سے نہ صرف ماہانہ لاکھوں روپے بچت کمارہے ہیں بلکہ سینکڑوں مقامی لوگوں کا روزگار بھی گولڈ مائننگ انڈسٹری جڑا ہوا ہے۔
ضلعی انتظامیہ دیامر کے مطابق دریائے سندھ کے کنارے صرف چلاس کے حدود میں اس وقت تقریباً تین سو ایکسویٹر مشینیں گولڈ مائننگ کررہی ہیں۔ جس سے ہزاروں برس قبل مسیح کے آثار قدیمہ اور چٹانوں پر نقش بدھ مت کی کنندکاریاں بھی متاثر ہورہی ہیں۔ اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر دیامر عارف احمد نے ہدایت جاری کی ہے کہ چٹانوں پر موجود نقوش اور کنندکاریوں سے نہ صرف انڈس تہذیب کی تاریخ جڑی ہے بلکہ اس سے علاقے کی سیاحت بھی متاثر ہورہی ہے۔
گزشتہ مہینے مائنز اینڈ منرل ڈیپارٹمنٹ گلگت بلتستان نے ضلعی انتظامیہ دیامر کو ہدایت کی تھی کہ دریائے سندھ کے کنارے بھاری مشینریوں سے سونا تلاش کرنے والے ٹھیکدادروں کو ہدایت کی جائے کہ گولڈ مائننگ کیلئے پہلے سرکار سے باقاعدہ این او سی لے کر ٹیکس دینے کا پابند کیا جائے،ورنہ قانونی کاروائی کے ساتھ پابندی لگا دی جائے گی۔
اہم بات یہ ہے کہ آئے حکومت یا (مائنز اینڈ منرل ڈیپارٹمنٹ) دیامر کے مقامی لوگوں کو قانونی طور پر اجازت لینے یا ٹیکس دینے کا پابند کرسکتی ہے؟اور اگر حکومت پابند کرسکتی ہے تو الحاق پاکستان کے وقت عوام دیامر اور حکومت پاکستان کے مابین طے شدہ معائدے کی کیا حیثیت ہوگی؟
1952 کے معائدے کے مطابق حکومت پاکستان یہاں کے حقوق ملکیت اراضی اور جنگلات و معدنیات کی حفاظت سمیت بدستور سابق مالک تصور کرنے کی پابند ہے۔ حکومت پاکستان اس امر کی مجاز ہے کہ دیامر میں پائے جانے والی معدنیات اور ہر قسم کے دیگر زخائر کی تلاش اور برآمدگی کرکے یہاں کے عوام کی آمدنی اور اقتصادی حالت بہتر کرے۔ نیز جنگلات کی تحفظ و نگرانی اور کٹائی و پرورش سمیت معدنی وسائل کا استعمال بہترین مفاد کی پیش نظر دیامر کے عوام کی اجازت سے کرےگی،اور جنگلات کی تحفظ اور پرورش کے اخراجات حکومت خود برداشت کرےگی۔ حکومت پاکستان پابند ہے کہ یہاں کے جنگلات اور معدنیات سے حاصل آمدنی کا ایک تہائی سے زیادہ قومی مفاد و بہبود پر عوامی رائے سے خرچ کرے گی۔
قیام پاکستان سے قبل (یاغستان) کہلایا جانے والا ضلع دیامر سیاسی، سماجی اور سیاحتی اعتبار سے اپنا ایک مقام تو رکھتا ہی ہے تاہم کئی وجوہات کے بنا پر یہ خطہ ہمیشہ سے بدامنی اور پسماندگی کا شکار رہا ہے۔ حالیہ ایک سروے کے مطابق دیامر غربت کی وجہ سے پاکستان میں دوسرے اور گلگت بلتستان میں پہلے نمبر پر ہے، جس کے پیچھے حکومتی غفلت، تعلیمی شرح میں کمی، حد سے زیادہ مذہبی سوچ کار فرما ہے۔
گلگت بلتستان دنیا کا دوسرا سب سے بڑا جوہر والا خطہ ہے۔گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں باالخصوص دیامر میں دھاتی معدنیات کے علاوہ پچیس کے قریب مختلف اقسام کے قیمتی اور نیم قیمتی پتھر موجود ہیں۔
اب ان قیمتی معدنی وسائل اور یہاں جنگلات پر قبضہ کرنے کیلئے حکومت وقت مختلف حربے استعمال کررہی ہے۔ جس کی واضح مثال گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کی حالیہ لہر ہے،کہ کیسے یہاں کے معدنی وسائل پر قبضہ کیا جائے۔
واضح رہے گلگت بلتستان میں گزشتہ مہینے فرقہ واریت کی ایک نئی لہر اٹھی تھی۔ تاکہ دیامر کے مقامی باشندوں کی مذہبی جنونیت سے فائدہ اٹھاکر 1952 کا معائدہ مسخ کرکے یہاں کی معدنی وسائل پر قبضہ جمایا جائے۔ کیونکہ 52 کا معائدہ ہی محکمہ معدنیات کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اس معائدے کو ختم کیئے بغیر وہ دیامر کی معدنی وسائل پر کام کرنے کیلئے نہ تو میز جاری کرسکتے ہیں نہ مقامی باشندوں کو ٹیکس کا پابند بنا سکتے ہیں۔اگر ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو نہ صرف معائدے کی کھلی خلاف ورزی ہوگی بلکہ سخت عوامی ردعمل بھی سامنے آئے گا۔
اس حوالے صدر تھک نیاٹ قومی یوتھ موومنٹ ضیاء اللہ تھکوی نے بتایا ہے کہ مائنز اینڈ منرل ڈیپارٹمنٹ گلگت بلتستان گزشتہ ایک سال سے دیامر کے حدود میں مختلف ٹھیکداروں اور کمپنیز کو غیرقانونی لیز جاری کررہا ہے۔ جو نہ صرف الحاق پاکستان کے وقت طے شدہ معائدے کی خلاف ورزی ہے بلکہ دیامر اور خطے کی آئینی اسٹیٹس کے ساتھ مذاق ہے۔
ضیاء اللہ تھکوی کے بقول ہم کئی مرتبہ ایسے ناجائز اقدامات کے خلاف احتجاج کرچکے ہیں مگر حکومت اور ادارے ٹس سے مس نہیں ہیں۔ اگر حکومت تسلیم کرتی ہے کہ یہاں کے معدنی وسائل اور جنگلات عوام کی ملکیت ہے تو محکمہ معدنیات کی جانب سے جاری کردہ غیرقانونی تمام لیز کو کینسل کیا جائے ورنہ سخت عوامی رد عمل آئےگا۔
حکومتی سطح پر معائدہ کے خاتمے کیلئے دوسری کوشش دیامر سے تعلق رکھنے والے موجودہ وزیراعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر کے دور میں اس وقت ہوئی جب گلگت بلتستان میں تین ماہ قبل فرقہ وارانہ ماحول گرم تھا۔
عین اسی وقت موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومتی جرگے کے کچھ اراکین نے علمائے دیامر کے سامنے 52 کا معائدہ رکھ کر خاموشی سے دستخط کرنے کی دھمکی دی مگر چالیس رکنی دیامر علماء کمیٹی نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ہم سب کو اگر دریائے سندھ میں پھینکا بھی جائے تب بھی اس پیپر پر دستخط نہیں کریں گے۔