عاصمہ جہانگیر

مہناز اختر

مکالمات فلاطوں نہ  لکھ سکی لیکن۔ ۔ ۔ ۔ اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں

عاصمہ جہانگیر کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں، شیروں کی کچھار میں دھاڑتی ہوئی شیرنی، مذہبی، سیاسی اور ریاستی انتہاپسندوں کے خلاف اٹھنے  والی کڑک دار آواز۔ آپ عاصمہ جہانگیر کو ناپسند کرسکتے ہیں، ان سے اختلاف کرسکتے ہیں، مگر ان کی شخصیت کے اثر اور وزن کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ عاصمہ جہانگیر پاکستان کو دل سے  own کرتی تھیں اور وہ یہاں رہ کر یہاں کے نظام کو چیلنج کرنے کی جرات بھی رکھتی تھیں۔ عاصمہ جہانگیر بیک وقت ملا اور آمر یہاں تک کے عدلیہ سے سوال کرنے کا حوصلہ لے کر پیدا ہوئی تھیں۔

بے باک اور نڈر نقاد زندہ قوموں کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ ایسی شخصیات  ایک میگنیفائنگ گلاس کی طرح معاشروں کے گلےسڑے بدبودار پہلوؤں کو واضح کرکے دکھانے کا کام کرتے ہیں تاکہ ہم ان کی طرف متوجہ ہوکر ان کا تدارک کرسکیں۔ افسوس کے آج پاکستان ایک اور میگنیفائنگ گلاس سے محروم ہوگیا۔ آج محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں ہیں۔ میں ان کی  وفات کی خبر سن کر ویسی ہی دل گرفتہ ہو جیسے میرے والد 2012 میں اردشیر کاوسجی کی وفات پر ہوئے تھے اور کہا تھا، ’’آج پاکستا ن نے  اپنا ایک انمول رتن کھو دیا ہے۔ اب کون سچ بولے گا یہاں۔‘‘

آج میں بھی ویسا ہی محسوس کر رہی ہو کہ پاکستا ن نے  اپنا ایک اور انمول رتن کھودیا ہے اب نجانے کب پاکستان میں ایسی نڈر عورت پیدا ہوگی؟