عاصمہ جہانگیر کو جنت کی ضرورت یا جنت کو عاصمہ جہانگیر کی؟

ولید بابر ایڈووکیٹ

کسی فلسفی نے کہا تھا کے اکثر لوگ تیس سال کی عمر میں ہی مر جاتے ہیں ستر سال کی عمر میں محض انہیں دفنایا جاتا ہے، اسی طرح چند لوگ ستر سال کی عمر میں بھی جوان ہوتے ہیں اور جواں مردی (عاصمہ صنفی تفریق کے خلاف تھیں مگر کیا کیجیے کہ ہماری زبان میں عورت کی بہادری کے لیے کوئی لفظ ہی نہیں) سے موت کا سامنا کرتے ہیں موت سے ڈرتے نہیں بلکہ ہنس کر موت کو گلے لگاتے ہیں کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ موت ایک حقیقت ہے اس لیے سینا ٹھونک کے موت کی آنکھ سے آنکھ ملاتے ہیں اور امر ہو جاتے ہیں ایسی ہی ایک عہد ساز شخصیت محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کی تھی جب تک زندہ رہیں دلیری، دیانت اور سچائی کی پوری قوت سے ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور مظلوم کی آواز بن کر زندہ رہیں اور جب زخصت ہوئیں تو ایک جہاں اشکبار چھوڑ گئیں۔

ایشیا سے افریقہ اور یورپ تا امریکا انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور منصفانہ سماج کا خواب دیکھنے والے ہر فرد کے جذبات عاصمہ کے لیے لبریز ہیں اور ہر کوئی ان کی موت کو اپنے خاندان اور قبیل کے اہم، موثر اور توانا شخص کی موت سمجھ رہا ہے اور کیوں نہ سمجھے وہ کوئی معمولی فرد یا خاتون نہ تھیں، وہ اب تک کی برصغیر بشمول موجودہ پاکستان کی معلوم تاریخ کی، انسانی حقوق کی سب سے متحرک، توانا، بااثر، بااصول، بے باک، قائدانہ صلاحیت مند نابغہ خاتون تھیں جن کی خدمات کا اعتراف بے شمار بین الاقوامی اداروں نے ان کی زندگی میں ہی کر دیا تھا۔ چھیاسٹھ (66) برس کی عمر میں کہ جب ہمارے اکثریتی بزرگ بستر پر پڑے موت کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں، یہ جوان مرد خاتون پوری آب و تاب کے ساتھ اپنے مقصد پر گامزن تھی۔ ملک میں سول حکومت ہو کہ بدترین فوجی آمریت، جنگ کا زمانہ ہو کہ امن کا دور، جب بات کرنا کفر ہو اور لوگوں کی زبانوں پر چھالے پڑے ہوں، اس دور میں کڑوا، بےباک اور ننگا سچ عوام کے سامنے بیان کرنا، اس بہادر خاتون کا شیوا رہا ہے۔

اسی لیے اس کی زبان بندی کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال ہوتے رہے کبھی یحییٰ خان کی غیر قانونی یلغار کے خلاف آواز بلند کرنے پر اسے غدار کی بیٹی قرار دیا گیا تو کبھی فوجی آمر ضیا کے دور میں کلاشنکوف، ہیروئن کلچر اور انتہا پسند پالیسی پر تنقید کرنے کے باعث قید و بند کی صعوبتیں اٹھنا پڑیں۔ فوجی آمر مشرف کے دور میں اوکاڑا مزارعیں کی زمینوں پر فوج کے غاصبانہ قبضے کے خلاف تحریک کے دوران قادیانی قرار دے کر سنگیں جانی خطرات کے باوجود آخری دم تک بے بسوں کے ساتھ کھڑی رہیں۔

یحیٰی خان کے مارشل لا کو غیر قانونی قرار دینے کی عدالتی ڈگری (عاصمہ جیلانی کیس) ہو، بنگلہ دیش میں نہتے عوام پر فوج کشی، یا ضیا کی مذہبی انتہاء پسندی کے سامنے سیسہ بند دیوار اور یا پھر مشرف کے بہ زور طاقت معزول کر دیے جانے والے جج افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک کی قیادت، انسانی حقوق کے لیے مال روڑ پر پولیس تشدد کا مقابلہ ہو یا لاہور میں پہلی میراتھن ریس کا انعقاد، بلوچ لاپتہ افراد کی آواز کا مقدمہ ہو کہ سندھی وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم، پشتون شناخت کی بات ہو کہ کشمیر و گلگت بلتستان پر غاصبانہ فوجی قبضے کے خلاف قومی آزادی کی جدوجہد کی حمایت یا پھر پنجاب کے پسماندہ علاقوں کے اختیارات میں اضافہ، ایسے سنجیدہ موضوعات پر بات کرتے ہوئے عاصمہ کی گن گرچ غیر متزلزل رہی اور زبان پر کبھی لکنت نہ آئی۔

عاصمہ کی موت پر جہاں اہل ضمیر رنجیدہ ہیں وہاں صدیوں کے بیمار ذہن خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ فوجی بیوروکریسی خوش ہے کہ ان کے غیر قانونی، غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدامات کے خلاف عاصمہ ایک استعارہ کی حیثیت اختیار کر گئی تھیں، مگر فوجی آمریتوں کے پھیلائے گئے جھوٹے پروپیگنڈا سےحیران کن طور پر متاثر ان پڑھ، سادہ لوح، مذہبی انتہا پسندی سے سرشار غیر سیاسی بونے، اسے قادیانی، غیر مسلم، اسلام دشمن اور غدار قرار دے کر قبر کے عذاب اور بعدازاں جہنم کی نوید سنا رہے ہیں کہ جیسے یہ میٹرک/انٹر پاس فلاسفر برائے راست خدا سے رابطے میں ہیں۔

عاصمہ جہانگیر جیسے خدا کے برگزیدہ نائب جو زمین پر درویشانہ اوصاف سے مزین مظلوم و بے کس انسانیت کے لیے اپنی زندگانی ایثار کر دیتے ہیں۔ بقول قرآن (سورۃ آل عمران ) جنت ان کی متلاشی ہوتی ہے۔ ایسے نابغہ افراد کو جنت کی نہیں جنت کو ان کی ضروت ہوتی ہے کہ ان کے بغیر جنت ادھوری ہے۔