عاصمہ جہانگیر کی نماز جنازہ، متبادل بیانیہ

حمزہ سلیم

عاصمہ جہانگیر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ کر چلی گئی۔ عاصمہ جہانگیر کون تھی؟ ہم سب انہیں کیوں یاد کر رہے ہیں؟ یہ تو گزشتہ روز ان کے نماز جنازہ کے اجتماع کو دیکھ کر سب کو معلوم ہو ہی گیا ہوگا۔ عاصمہ جہانگیر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قبر میں سو گئی ہیں، لیکن وہ ہمیشہ پاکستان کے کونے کونے میں نظر آئیں گی۔ ان کی انسانیت سے محبت کا احساس پوری پاکستانی قوم کو ہمیشہ ہمیشہ یاد رہے گا۔

کیا منفرد اور انوکھا نماز جنازہ تھا، جس میں امیر ،غریب، طاقتور،کمزور، مسلمان، ہندو، مسیحی، سکھ، پنجابی، بلوچ، پشتون، سندھی، سنی، شیعہ، مرد، خواتین سب ہی موجود تھے، ان تمام کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ دھاڑیں مار مار کر روتے نظر آئے۔ ان کے نماز جنازہ کے روح پرور مناظر سے ثابت ہوگیا کہ وہ ریاست کی وکیل نہیں تھی، وہ مظلوم عوام کی وکیل تھی، ہزاروں کی تعداد میں مظلوموں اور اشرافیہ نے مل کر انہیں خدا حافظ کہا۔

میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ اس نماز جنازہ میں عاصمہ جہانگیر بی بی کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے، جب ان سے کسی نے پوچھا بی بی آپ کی آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں؟ تو بتانے والے بتاتے ہیں کہ یہ آنسو دکھ اور افسوس کے نہیں بلکہ خوشی کے تھے۔ بتانے والے نے بتایا کہ وہ لوگ جو انہیں کافر، غدار،قادیانی ،ملک دشمن کہتے تھے ،آج وہ بھی ان کے نماز جنازہ میں موجود تھے ،اسی وجہ سے ان کی آنکھوں میں آنسو تھے، بتانے والے نے بتایا کہ عاصمہ بی بی مرنے کے بعد خوش تھی اور کہہ رہی تھی کہ جو انہوں نے کرنا تو وہ کردیا ،اس لئے اب وہ ہمیشہ ہمیشہ اس کائنات میں مسکراتی نظر آئیں گی ۔

انسانیت پرست پاکستانی قوم نے شاندار انداز میں عاصمہ بی بی کو خدا حافظ کہا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی جنازے میں خواتین کی اتنی بڑی تعداد شریک ہوئی ہو،میڈیا رپورٹس کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں خواتین عاصمہ بی بی کے نمازہ جنازہ کا حصہ تھی۔ عاصمہ بی بی کے رشتہ دار بھی تھے، دوست بھی تھے، اشرافیہ کے افراد بھی، اس نماز جنازہ کا حصہ تھے، غریب اور مظلوم بھی تھے،کسان اور ہاری بھی تھے، مولوی بھی تھے تو لبرل اور سیکولر بھی، سب کی آنکھوں میں آنسو رواں تھے، لیکن عاصمہ بی بی خوش تھی، وہ اس لیے کہ شاید وہ ایسا پاکستان ہی چاہتی تھیں، جس میں سب انسان برابر ہوں، رنگ و نسل سے بلند ہو،  ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہوں۔کیا کبھی ایسا جنازہ پاکستان کی تاریخ میں دیکھا گیا ہے، عاصمہ جہانگیرکہاں ؟ فاروق حیدر مودودی کہاں ؟

میڈیا رپورٹ میں کہا گیا کہ جب جنازے میں اعلان کیا گیا کہ نماز جنازہ میں شامیانہ لگا کر خواتین اور مردوں کو علیحدہ علیحدہ کر دیتے ہیں تو مجمعے سے آواز آئی کہ عاصمہ جہانگیر تو صنفی امتیاز کے خلاف تھی، تو کیسے شامیانہ لگا جاسکتا ہے اور پھر شامیانہ نہ لگایا جاسکا اور سب نے مل کر نماز جنازہ پڑھی اور خوبصورت انداز میں عاصمہ جہانگیر کو الوادع کیا گیا۔ یہ تھی عاصمہ جہانگیر۔ یہ ہے وہ حقیقی پاکستان جو گزشتہ روز عاصمہ بی بی کے نماز جنازہ میں نظر آیا۔ وہ متبادل بیانیہ جسے ریاست برسوں سے تلاش کررہی ہے، وہ متبادل بیانیہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کے نمازہ جنازہ میں سب کو نظر آیا، اب معلوم نہیں کہ ریاست اور حکومت کو بھی وہ متبادل بیانیہ نظر آیا ہے یا نہیں؟ قذافی اسٹیڈیم میں جب عاصمہ بی بی کا نمازہ جنازہ ہو رہا تھا تو متبادل بیانیہ بھی سب انسانوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا تھا۔ ٹھیک ہے عاصمہ جہانگیر کے نام پر یونیورسٹی بنادیں، پنجاب یونیورسٹی کے لا ڈیپارٹمنٹ کو عاصمہ جہانگیر کا نام دے دیں، کسی شاہراہ کا نام ان کے نام پر رکھ دیں، لیکن خدارا اس بیانیے پر بھی توجہ دیں جس کے لیے عاصمہ بی بی ساری زندگی جدوجہد کرتی رہیں۔