علامہ اقبال کا خط جواد بھٹی کے نام

جواد بھٹی

وعلیکم السلام۔ خط تو تمھارا بہت پہلے ملا تھا مگر شدید مصروفیات کی وجہ سے جواب نہ دے سکا۔ تمھیں آسانی سے جو سمجھ آ جائے وہی اردو لکھ رہا ہوں عربی اور فارسی کے علاوہ سنسکرت کے الفاظ کا کم استعمال کرنے کی کوشش کروں گا۔ تم نے پوچھا کہ حالات کیسے ہیں یہاں کے، حالات تو بہتر ہیں یہاں موج اور سکون کی زندگی ہے۔

مگر تمھارے ہاں جو پریشانی پائی جاتی ہے مجھ سمیت سارے احباب کا دل افسرده ہے تمھارے مستقبل کو لے کر۔خاص کر جہموری رویے کی شدید کمی اور جمہوری عمل میں بار بار رکاوٹ تو پریشانی کا باعث ہے۔

کل محمد علی جناح کے ہاں گیا تھا تمھیں تو پتا ہے وہ بھی نالاں ہیں ابھی تک ۔ایوب خان ان سے ملنے آیا ہوا تھا تو قائد کے دربانوں نے اسے ملنے نہ دیا بلکہ قائد نے یہ بھی کہا کہ اب ایوب خان جو مرضی کر لے اس کے ساتھ یہی سلوک ہو گا۔ مجھے شرم آتی ہے کہ ایک ڈیکٹیٹر کے ساتھ مل کر بیٹھنے سے میں نے پاکستان کی عوام کو کل منہ بھی دکھانا ہے۔ خان لیاقت علی خان نے بھٹو سے مل کر فاطمہ جناح کو اس بات پہ راضی کیا ہے کہ قائد اعظم، بھٹو کی مجبوری کو سمجھ کر اس کو معاف کر دیں۔

کل میرے بیٹے جاوید اقبال نے ایک محفل میں یہ کہہ دیا کہ میں نے ہندوستان کی تقسیم کی مخالفت کی تھی اب اس کی صفائی دیتے دیتے پتہ نہیں کتنا وقت لگے گا ۔ضیا الحق اکثر قدرت اللہ شہاب سے اپنے قصیدے ہی سنتے رہتے ہیں اور داد دیتے رہتے ہیں۔
حمید گل بھی اکثر چکر لگاتے رہتے ہیں مگر وہ میری چند باتوں کو تو سمجھ سکے اور باقی کو نہیں سو اب وہ چاہتے ہیں کہ باقی باتوں کو سمجھنے کے لیے میرے پاس بیٹھیں اور درس لیں۔

فاطمہ جناح اور شیخ مجیب الرحمن کے گھر قریب قریب ہیں جبکہ ایوب اور یحییٰ کے گھر بھی ایک محلے میں ہیں۔ یہاں دو قسم کے محلے ہیں عزیزی جواد! ایک محلہ ڈیموکریٹک محلہ اور ایک ڈکٹیٹر محلہ۔ ڈکٹیٹر محلے والے آج بھی ششدر ہیں کہ سارے لیڈر جو کافر اور غدار تھے امریکا کے ایجنٹ تھے، وہ کیسے جنت میں گھوم رہے ہیں۔

چھوٹے موٹے سیاسی بونے ابھی بھی دوہرے کردار کے مالک ہیں صبع کا ناشتہ اگر وہ ٍڈیموکریٹک محلے میں کرتے ہیں تو شام کی چائے کسی ڈیکٹیٹر کے ہاں پیتے ہیں۔میں نے سرسید اور مولانا کلام آزاد کو بلا کر یہ تجویز دی تھی کہ ان کا راستہ روکا جائے۔۔مگر مولانا کلام کی قائد سے بھی نہیں بنتی نا۔۔تو وہ ہچکچاتے بھی ہیں اور اتنا زیادہ انٹرسٹ بھی نہیں لیتے اب تو یہی باتیں ہیں کہ ہر کوئی انجام سے با خبر ہے تمھارے۔

تم نے پوچھا تھا کہ قائد کی کیا رائے ہے مشرف کے لیے۔۔تو بتا دوں وہ اس کو ایک نظر دیکھنا بھی نہیں چاہتے۔۔ہاں جنرل نیازی کے باتوں باتوں میں روز لتے لیے جاتے ہیں۔جب سے مرزا کو پتہ چلا ہے کہ ہندوستان دو ٹکڑے ہو گیا ہے وہ بس جام پہ جام پیے جا رہے ہیں اکثر حوریں شکایت کرتی ہیں کہ مرزا ہاتھ تھک گئے ہیں پر وہ ایک نہیں سنتے۔ قائد اعظم۔ ملک۔معراج خالد کو بہت چاہتے ہیں اور اس کی کاردگری سے خاصت مطمئن ہیں۔

بے نظیر بھٹو نے ایک عشائیے میں جب یہ بات چھیڑی کہ ہمیں آصف سے کوئی گلہ نہیں میرے اپنے فیصلے غلط تھے تو بھٹو صاحب نے کہا فیصلے غلط نہیں تھے غلط بنا دیے گئے تھے پنکی۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے مجھے مٹھائ بھیجی میں نے پوچھا کس خوشی میں جناب۔۔تو بولے کہ میرے بیٹوں نے مسلم لیگ میں شموليت اختیار کر لی۔

چھوٹے میاں صاحب کی کا در گری سے سارے ہی خوش ہیں۔۔۔۔بس ان کے جزباتی انداز اور مصلحت کی پالیسی سے سب ہی اختلاف کرتے ہیں موجودہ حالات میں۔ میاں شریف صاحب سے کل انہوں نے کہا ہے کہ آپ کے بیٹے نواز شریف پہ مجھے غصہ ہے کہ اس نے اس کو آرمی چیف کیوں بنایا۔ ۔میاں صاحب نے کہا کہ وہ بھولا آدمی ہے۔حمید نظامی نے بھی کل یہی کہا کہ جناح صاحب بچہ کچھ کرے گا پاکستان کے لیے۔

اس پر وہی الزامات ہیں جو آپ پر۔آپکی بہن پر اور بھٹو پر لگائے گئے تھے۔۔۔پر اب کی بار پنجاب کے لوگ اس کے ساتھ ہیں۔ فاطمہ جناح نے کل مولانا ظفر علی خان کو کہا کہ نواز شریف نے اب میرے نعرے کو آگے لے کر چلنے کی جو ٹھان لی ہے وہ پاکستان کی بہتری ہے۔۔پر ادھر کے حالات کی خبر مجھے دیتے رہنا نوابزادہ نصر اللہ خان سلام دے رہے ہیں خصوصی۔