“عمار علی جان کوئی سوشل ایکٹیوسٹ یا باغی نہیں ایک ایجنٹ ہے”

مظفر نقوی

ہفتے کی صبح کوئی 4 بجے کے قریب کچھ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک گھر کی چاردیواری پھلانگی اور ایک “انتہائی مطلوب دہشت گرد”کے گھر میں داخل ہوئے۔دہشت گرد پے لگے الزام آگے جا کر آپ کو بتاتے ہیں۔ بس جان لیں دہشت گرد ہے اور بہت ہی شدت پسند دہشت گرد اور ہاں اس کی ویڈیو بھی موجود ہے کہ کس طرح کچھ فرض شناس افسروں نے چارد دیواری پھلانگی اور پھر بعد میں گھر کی بیل بھی بجائی۔ کیونکہ ان کا مقصد کسی کو تنگ کرنا نہیں تھا۔ وہ تو بس اپنا کام کرنے آئے تھے اور بھلا کسی دہشت گرد کو پکڑنے سے بہتر اور کیا کام ہو سکتا ہے۔

آپ ہی بتا دیں؟ اب ان کا کام کسی راہ چلتے کو مارنا یا کسی کےبچوں کو یتیم کرنا تو ہے نہیں۔ بس ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنا ہے۔ویسے بھی صبح صادق کا متبرک ٹائم ہے۔ مگر یہ غافل انساں تھے کہ بس سوئے ہوئے تھے۔

دراصل بات یہ ہے کہ پانچ فروری سے ایف آئی آر درج تھی قانون نافذ کرنے والے ادارے چھاپے مارتے رہے مگر یہ دہشت گرد کہیں ملے نہیں،اب یہ نا پوچھیے گا کہ چھاپے مارے کہاں جا رہے تھے یا کہاں مارے۔بس مار دیے تو مار دیے۔اب ہر کسی کو بتانا ضروری تھوڑی ہے۔

یہ سب کہانی جو آپ کو سنائی جا رہی تھی ایک پروفیسر عمار علی جان کی ہے، جو خود کو ایک سوشل ایکٹیوسٹ کہتے ہیں۔جن کی سوچ باغی ہے۔وہ خود ایسا سوچتے ہوں گے مگر ہم نہیں مانتے۔وہ غیر ملکی ایجنٹ تو ہو سکتے ہیں مگر سوشل ایکٹیوسٹ تو ہر گز نہیں۔ہم کیوں نہیں مانتے آپ ان پے لگے الزامات دیکھ لیں۔ بھلا یہ کسی سوشل ایکٹیوسٹ کے کام ہو سکتے ہیں۔

ان پے ایک ایف آئی آر کاٹی گئی اور الزام لگایا گیا کہ یہ لبرٹی چوک میں ہونے والے ایک مظاہرے میں شریک تھے۔اپنے جیسے ہی کسی پروفیسر ارمان لونی کے قتل کے خلاف ایک احتجاج میں۔ جس کے وارث یہ الزام لگا رہے ہیں کہ اسے قتل کیا گیا ہے۔حالانکہ اس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ثابت ہے کہ موت ہارٹ اٹیک سے ہوئی ہے۔کیا پوسٹ مارٹم رپورٹ جھوٹ بول سکتے ہے؟ جی نہیں ہر گز نہیں۔

ابھی کچھ عرصے پہلے ہی کی بات ہے جب کراچی کےایک پروفیسر (پروفیسر حسن ظفر عارف) گاڑی چلا کے گھر جا رہے تھے۔ ان کو پتا نہیں کیا سوجی کہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پے بیٹھ گئے۔اطمینان سے ہارٹ اٹیک برداشت کیا ۔اپنے جسم پے تھوڑے بہت درد کی وجہ سے زخم دیے اور فوت ہو گئے۔ بس اب مرنے والے کا کیا کیا جا سکتا ہے۔

جی میں بات کر رہا تھا ایف آئی آر کی جس میں عمار علی جان پے الزام تھا کہ لاؤڈ سپیکر استعمال کرنے کے سبب، عام عوام کو پریشان کرتے رہے اور امن و امان میں خلل ڈالتے رہے، دہشت گردی نا منظور کے نعرے مارتے رہے۔ عمار علی جان نے لوگوں کو اشتعال دلایا اور لوگ اس قدر مشتعل ہو گئے کہ احتجاج کرنے کے بعد اپنےاپنے گھروں کو لوٹ گئے۔

اوہ خدایا کیا آپ سوچ سکتے ہیں۔ کہ کوئی لاؤڈ سپیکر استعمال کرے اور وہاں سے فتوی صادر نا کرے اور کہے کہ قاتلوں کو کٹہرے میں لاؤ۔بھلا کوئی اس بندے کو سمجھائے کہ یہ کوئی کرنے والی بات ہے لاؤڈ سپیکر کیا اس لئے استعمال ہوتا ہے۔

لاؤڈ سپیکر تو اس لیے استعمال ہوتا ہے کہ فتوی آ سکیں پتا چل سکے کون کافر ہے کون مومن ہے یہ کہاں کی بات کہ انصاف کرو۔ اور یہ بھی بھلا کوئی احتجاج ہے نا جلاؤ نا گھیراؤ۔

اسی ایف آئی آر کی بدولت ان کو صبح گھر سے اٹھا کے کچھ دیر گلبرگ تھانے میں رکھا گیا اور پھر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔ ویسے یہ بھی کوئی نا معلوم مقام ہوا کہ دو، تین گھنٹوں بعد چھوڑ دیا جائے۔ حالانکہ لوگوں کا مہینوں سالوں پتا نہیں چلتا۔ بس کیا کریں مہر بانی ہے بڑے لوگوں کی۔

پھر کچھ کامریڈ ،جی ہاں کچھ بھولے بھالے بچے جن کا اس دہشت گرد نے دماغ خراب کر رکھا تھا اور سول سوسائیٹی کے لوگ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ سیٹ کرنے لگ گئے کہ
#whereIsAmmar اور جب واپس تھانے لایا گیا تو ایک اور ٹرینڈ #ReleaseAmmarAliJaan
ویسے حیرت ہے بھلا عمار علی جان کو کچھ کر دینا تھا کیا کسی نے ؟ پوچھ گوچھ ہی کرنی تھی۔اور ویسے بھی کچھ کیا ہو گا تو لے کے گئے ہیں۔کوئی ایسے تھوڑی اٹھا لیتا ہے کسی کو۔ادارے انصاف کے لئے موجود ہیں اور آپ انصاف ہوتا دیکھ نہیں رہے کہ ہم نے اے پی ایس سانحے کے ملزم احسان اللہ احسان کو کس طرح مقام عبرت بنا دیا ہے اور کیا چاہیے آپ کو۔کیا اب راؤ انوار کو بھرے مجمع میں پھانسی دے دیں۔فیصلہ تو آنے دیں اور نقیب کا وقت آیا ہوا تھا مر گیا۔آخر نقیب کے رشتے دار بھی تو ایک سال سے پھر رہے ہیں۔

مگر عمار صاحب کو کون سمجھائے کہ بھائی ہوش کے ناخن لو تمہیں پرانے سبق یاد نہیں کہ کس طرح تم نے اچھے بھلے طالبعلموں کے ذہن میں بکواس سے سوالات اٹھانے کی کوشش کی تھی۔ان کو ان کے حقوق اور سوالات اٹھانے کی ترغیب دی تھی۔ اور تو اور جناب کو سٹڈی سرکل کروانے کا اتنا شوق تھا کہ ایویں ہی ہر کسی کو پڑھائی جا رہے تھے۔ سٹوڈنٹ اپنے پروفیسرز ،اپنے پی ایچ ڈی سپروائیزرز کو چھوڑ کے ان کے پاس آ رہے تھے۔

اب کون سمجھائے اس بچگانہ سوچ کے بندے کو بھائی گیان کے پیسے لیتے ہیں۔مفت میں نہیں بانٹا جاتا۔لوگوں کے گھر اسی سے چلتے ہیں۔سٹوڈنٹ ا ستاد کے نخرے اٹھائیں گے تو سی جی پی بڑھے گا ۔اور پھر اس کا نتیجہ دیکھا نہیں کہ کیسے جناب کو پنجاب یونیورسٹی سے چلتا کیا تھا۔ کرتے رہو کیس اب ۔کیا ہونا ہے کیس کر کے؟ انکو شاید ہماری عدالتوں کی تاریخ نہیں معلوم۔

وہاں آج تک کسی کا کچھ ہواہے حل جو آپ کا ہو گا ۔
یاد آیا فیض فیسٹیول کیسے بھول گئے۔جب مزاحمت کی علامت بیسویں صدی کے شاعر فیض احمد فیض کی شاعری اور زندگی کا جشن منانے کے لیے چوتھا سالانہ فیض میلہ لاہور میں منعقد کیا گیاتھا ۔تو عمار علی جان ’آزادیِ رائے‘ کے موضوع پر ایک مباحثے میں تجزیہ پیش کرنا تھا اور پھر یوں ہوا کہ بولنے کی آشادی ہی نا دی گئی۔

اور اب یہ تیسری بار سمجھایا جا رہا ہے کہ سمجھ جاؤ۔ ایک بات بتاؤ بھلا تم کو کیمبرج یونیورسٹی سے اس لئے پی ایچ ڈی کروائی تھی گھر والوں نے کہ سڑکوں پے مارے مارے پھرو
اور ایک بات سمجھ نہیں آتی۔ ہو بھی پنجابی مٹی سے اٹھے انسان۔ بھائی ہم بغاوتیں نہیں کرتے اور ہو بھی لاہوری۔ تو تخت کے مزے لو ہماری تو مٹی میں ہے ہی سکون،ایکانت، سر جھکائے رکھو۔

مگر کیا کریں ادھرتو آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔ہفتے کی رات موصوف کے ابا جان خالد جاوید جان کو سُن رہا تھا پاک ٹی ہاؤس میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے ساتھ ان کے اعزاز میں ایک مکالمہ منعقد کیا گیا تھا۔جس میں وہ بتا رہے تھے۔ کس طرح پنڈی میڈیکل کالج سے ضیاء کے نام کی تختی اتارنے پران کو مار مار کے لے گئے تھے اور ٹانگیں توڑ دی تھیں۔آپ تو پھر بھی بچ گئے ہیں ایک ہی دن میں گھر پہنچ گئے اور یہ سماج سے بغاوت کی باتیں چھوڑو بھائی تم کوئی باغی واغی نہیں ہو۔بس ایک ایجنٹ ہو اغیار کے اور بھلا ایجنٹوں کا آج تک کچھ ہوا؟ سوائے بدنامی کے۔

ہم تو مادر ملت نما ایجنٹوں کو سکون کی نیند سلا دیتے ہیں۔کسی کو پنڈی باغ میں میٹھی گولی دے دیتے ہیں کسی کو رسی سے لٹکا دیتے ہیں اور کسی کو جلا وطن کر دیتے ہیں۔ہمیں سب قابو کرنا آتا ہے۔