عمران خان ، روحانیت اور شعبدہ بازی
عبدالرؤف خاں
روحانیت سے عمران خان کا اُس وقت سے تعلق ہے، جب اُن کی عمر صرف چودہ برس تھی۔ اپنی کتاب ’’میں اور میرا پاکستان‘‘ میں صفحہ نمبر اکیاسی پرعمران خان خود لکھتے ہیں، ’’ایسے کئی لوگوں سے مجھے واسطہ رہا، جو روحانی مشاہدات سے گزرتے تھے، میرے خاندان کے کئی بزرگ۔ میری والدہ اُس وقت روحانیت کی طرف زیادہ متوجہ ہونے لگیں، جب میری عمر دس برس تھی۔ ساہیوال سے تعلق رکھنے والی ایک صوفی خاتون سے ان کی اور میری خالہ کی ملاقات ہوئی اور وہ پابندی سے وہاں جانے لگیں۔ پاکستان میں روحانی پیشوا اور پیر بہت ہیں۔ چودہ سال کی عمر میں مجھے اپنے پہلے روحانی تجربے سے واسطہ پڑا۔ میری والدہ کی روحانی پیشوا پہلی اور آخری بار ہمارے گھر آئیں۔ میری والدہ بہت پرجوش تھیں وہ مجھے ان کے پاس لے گئیں کہ وہ میرے لیے دعا کریں اور رہنمائی بھی۔ اپنی تین چار ماننے والیوں کے ساتھ وہ فرش پہ بیٹھی تھیں انہوں نے چادر اوڑھ رکھی تھی۔ میری طرف انہوں نے دیکھا تک نہیں اور نہ مجھے ان کا چہرہ نظر آسکا۔ کچھ دیر وہ خاموش رہیں اور پھر انہوں نے کہا کہ میں ناظرہ قرآن کی تعلیم مکمل نہیں کی۔ یہ بات صرف میں جانتا تھا یا مجھے پڑھانے والے مولوی صاحب۔ سال بھر میں مولوی مجھ سے مایوس ہوگئے ایک دن میں نے گھر آکر اپنی والدہ کو بتا دیا کہ میں نے ناظرہ قرآن کی تعلیم مکمل ہوچکی ہے۔ روحانی پیشوا کی بات سُن کر میرا چہرہ فق ہوگیا، جس سے میری والدہ کو پتہ چل گیا کہ میرے بارے میں بتائی جانے والی بات دُرست ہے۔ روحانی پیشوا میری والدہ سے بولیں کہ یہ بالکل ٹھیک ہوجائے گا۔ میری والدہ کے چہرے پر اطمینان اترنے لگا اور اب نہیں بتایا گیا، ’’آپ کا فرزند عالم گیر شہرت کا حامل ہوگا اور خود آپ کے نام کا چرچا اس کی وجہ سے گھر گھر پہنچ جائے گا۔ یہ میری زندگی کا پہلا روحانی تجربہ تھا اور میں حیران تھا کہ روحانی پیشوا کو کیسے پتہ چلا؟‘‘
پھر صفحہ نمبر 86 پر لکھتے ہیں۔
’’1987 میں جب پہلی بار میں نے کرکٹ سے سبک دوشی کا اعلان کیا تو ایک دن میں شمال میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ لاہور سے لگ بھگ سو میل کے فاصلے پر تھا۔ شکار سے فارغ ہونے پر میرے میزبان نے مجھ سے کہا کہ میں واپسی کے دوران ایک روحانی آدمی سے مل لوں، جو ایک گاؤں میں رہائش پزیر ہے۔ ذاتی طور پر مجھے کوئی دلچسپی محسوس نہ ہوئی مگر دوسروں کی خاطر میں آمادہ ہوگیا۔
بابا چالا نام کا یہ آدمی بھارتی سرحد سے چند میل اِدھر مقیم تھا۔ مطمئن چہرے اور چھوٹے قد کے ساتھ وہ چھبتی ہوئی آنکھوں والا شخص تھا۔ وہ نہ جانتا تھا کہ میں کون ہوں۔ گاؤں کے کسی گھر میں ٹیلی ویژن نہ تھا۔ مزید یہ کہ وہ ایسا شخص نظر نہ آتا تھا، جسے کرکٹ سے دلچسپی ہو۔ میری سب کدوشی کے بارے میں یقیناً اس نے کچھ نہ سنا تھا۔ میرے میزبان نے اس سے پوچھا کہ بابا جی کرکٹ کے بعد میں کیا کروں گا؟‘‘
اس شخص نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ ابھی کرکٹ اس نے ترک نہیں کی۔ ہم سب نے اس سے کہا کہ میں نے واقعی کرکٹ چھوڑ دی ہے اور واپسی کا ہرگز کوئی ارادہ نہیں۔ اس کا جواب یہ تھا،’’ اللہ کی مرضی یہی ہے کہ ابھی تم کھیلتے رہو‘‘۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ میری کتنی بہنیں ہیں اور اُن کے کیا نام ہیں۔
پھر بابا چالا میرے دوست صدیق کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوگا۔ لہٰذا وہ کاروبار میں لگی اپنی رقم واپس لے لے اور یہ کہ بالآخر معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔ محمد صدیق کو یہ بتا کر اس نے بالکل ششدر کر دیا کہ کتنی رقم کی اس نے سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ ہم وہاں سے حیران واپس آئے اوراس بارے میں بحث کرتے رہے کہ میری بہنوں کے نام اسے کس نے بتائے ہوں گے؟ جس چیز نے سب سے زیادہ پریشان کیا وہ یہ تھی کہ کاروبار میں لگی صدیق کی رقم کے بارے میں اس کے پاس مکمل ترین معلومات کیسے آئیں؟ چند ماہ بعد جنرل ضیاء الحق نے مجھ سے درخواست کی کہ میں سب کدوشی کا فیصلہ واپس لے کر پھر سے کرکٹ ٹیم کی قیادت کروں۔ اور محمد صدیق کے کاروبار میں بالکل وہی کچھ ہوا جو بابا چالا نے پیش گوئی کی تھی۔ دور دراز گاؤں میں بیٹھے اس آدمی کو ان چیزوں کا علم و ادراک کیسے ہوا؟ میں اس بارے میں سوچتا رہا۔
سال کے بعد اس شخص سے میری ملاقات ہوئی جسے روحانی طور پر میری زندگی پہ سب سے زیادہ اثر انداز ہونا اور اسے یک سر بدل ڈالنا تھا۔ لاہور میں ایک دوست نے مجھے دوپہر کے کھانے پر بلایا۔ صرف ایک مہمان اور تھا۔ ساٹھ کے پیٹے میں دبلے پتلے زرد رو میاں محمد بشیر۔ ان کے خدوخال کہتے تھے کہ زندگی میں بہت کچھ وہ جھیل چکے ہیں۔ کھانے کے دوران وہ مکمل خاموش رہے گویا کسی بھی چیز سے انہیں کوئی واسطہ نہ ہو۔ کھانے کے بعد انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں قرآن کی فلاں آیت پڑھا کرتا ہوں؟ میں نے کہا ’’جی نہیں‘‘ ان کا چہرہ سوچ میں ڈوب گیا آنکھیں موند لیں، گہرے غوروفکر میں کچھ دیر غرق رہے اور پھر یہ کہا، ’’معاف کیجیے یہ آپ کی والدہ تھیں جو آپ کی حفاظت کے لیے آیات پڑھا کرتیں تھیں۔ حیرت زدہ اور گنگ، مجھے یاد آیا کہ وہ درست کہتے تھے۔ زندگی میں اتفاقات نہیں ہوتے یہ اللہ کی طرف سے میری راہنمائی کا اہتمام تھا۔ میاں بشیر ممکن ہے مستقبل میں جھانکنے کی کچھ صلاحیت رکھتے ہوں لیکن مجھ پر ان کی جس بات حقیقی اثر تھا، وہ ان کی بصیرت تھی۔ میں نے میاں محمد بشیر سے پوچھا کہ انہیں اس بات کا کیسے علم ہوا کہ میرے بچپن میں میری والدہ قرآن مجید کی فلاں آیت پڑھ کر پھونکا کرتی تھیں۔ انہوں نے بار بار وضاحت کی کہ وہ صرف وہی کچھ دیکھ سکتے ہیں جو اللہ انہیں دیکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ صلاحیت قیافہ شناسوں اور نجومیوں میں بھی ہوتی ہے تاہم بیس سال کے عرصے میں جب سے میں میاں بشیر کو جانتا ہوں ان کی کوئی ایک ایسی پیش گوئی بھی ایسی نہ تھی، جو غلط ثابت ہوئی ہو۔ جمائما اس صلاحیت کو شک کی نگاہ سے دیکھتی تھی ۔ جب وہ پہلی مرتبہ میاں بشیر سے ملی تو انہوں نے جمائما سے کہا کہ وہ تین ایسی چیزوں کے بارے میں لکھے جو اسے زندگی میں سب سے زیادہ مطلوب ہیں۔ وہ حیران و پریشان رہ گئی، جب میاں صاحب نے اس کے لکھے کاغذ کو دیکھے بغیر بتایا کہ اس نے اپنی کن خواہشات کا ذکر کیا ہے۔‘‘
قارئین کرام اب یہیں پر رُک جائیں اور میں منظر کو بدلتے ہوئے آپ کے سامنے یوٹیوب کے ایک چینل جس کا نام ہے
ریان ٹرکس ٹی وی
پر لیے چلتا ہوں۔ آپ اس چینل پر ایسے بیش بہا شعبدے دیکھ سکتے ہیں جیسے میاں بشیر نے عمران خان کو دکھائے۔ اور بالکل ایسا ہی شعبدہ آپ دیکھ سکتے ہیں، جیسا جمائما کو دکھایا گیا۔ ایک ویڈیو میں تو شعبدہ باز اے ٹی ایم مشین کے پاس کھڑا ہوجاتا ہے اور لوگوں کے اے ٹی ایم کا پاس ورڈ بتاتا ہے صرف لوگوں کی باڈی لینگوئج کو پڑھ کر۔ اسی طرح مائنڈ ٹرک کے ذریعے سے شعبدہ باز لوگوں کو بتاتے ہیں کہ آپ کچھ بھی کاغذ پر لکھیں اور جیب میں ڈال لیں۔ پھر شعبدہ باز باڈی لینگوئج کو پڑھتے ہوئے بتاتا ہے کہ کاغذ پر کیا لکھا گیا ہے۔ اب ہمارے بھولے عمران خان اس شعبدہ بازی کو اگر روحانیت کی معراج سمجھیں تو اس میں میرا اور آپ کا کیا قصور؟ حیرت ہے آکسفورڈ نے بھی اس بندے کی ذہنی صحت پر کوئی اثر نہیں ڈالا ہے۔
بشریٰ نام کی یہ عورت جن سے عمران خان کی شادی کی خبر معروف صحافی عمر چیمہ نے بریک کی ہے۔ عمران خان ان کے پاس ایک عرصے سے مل رہے ہیں۔ کچھ ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ ریحام خان کو طلاق دلوانے میں انہی محترمہ کا ہاتھ ہے، جنہوں نے عمران کو دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ ریحام خان آپ پر جادو کروا رہی ہے۔ پھر عمران نے ایک ٹیکسٹ میسیج کے ذریعے ریحام سے اُس کا موقف جانے بغیر طلاق دے دی۔
طلاق کے بعد انہی محترمہ نے عمران خان کو کہا کہ دو دن تک مسور کی دال کو اپنے جسم پر مل کر گھر میں رہنا ہے۔ عمران خان نے دو دن مسور کی دال جسم پر ملی اور بنی گالہ میں موجود رہے۔ پھر یہی محترمہ اپنے سابقہ شوہر سے خُلع لیتی ہے اور اپنے ہی مُرید سے شادی کر لیتی ہے۔ یہ سب کچھ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوا ہے کیونکہ دُنیا میں اتفاقات ایسے نہیں ہوتے جیسے ہمیں دکھائے جارہے ہیں۔ خُلع لینے کا پس منظر کچھ یوں بیان کیا جارہا ہے کہ کچھ روحانی وجوہات کی بنا پر یہ شادی نہیں چل سکتی تھی۔ ظاہر ہے جب بشریٰ صاحبہ اور عمران خان کی روحوں کا ملاپ ہو رہا تھا، تب روحانی وجہ تو سامنے ضرور آنا تھی۔ ہم اخباروں میں اکثر پڑھتے تھے کہ شعبدہ باز پیر اپنی مریدنی کو بھگا کر لے گیا۔ عمران خان وہ واحد مُرید ہے، جس نے اپنی ہی پیرنی سے شادی کرلی۔
اگر عمران خان پر روحانیت کا ذرا بھی اثر ہوتا تو اس میں جو غرور ہے وہ بالکل ختم ہوجاتا اور عاجزی اُس کی جگہ لے لیتی۔ میں نے خود اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح سے عمران خان اپنے ورکروں کی تضحیک کر رہا ہے، کبھی کہنی کے وار سے اُنہیں پیچھے دھکیل رہا ہے اور کبھی عمران اسماعیل جیسے رہنما کو بھی دھکا دے کر پیچھے ہٹنے کو کہ رہا ہے۔ ان سب واقعات کی ویڈیوز موجود ہیں۔ ان کی تقریر کو غور سے سُن لیں، ’’میں‘‘ سے شروع ہوگی اور ’’میں‘‘ پر ہی ختم ہوگی۔ روحانیت کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ روحانیت کا سب سے پہلا سبق ہی انسان میں موجود ’’میں‘‘ کو ختم کرنا ہوتا ہے۔
یہ دُنیا کی واحد شادی ہے، جس میں نکاح پہلے ہوتا ہے اور رشتہ بعد میں مانگا جاتا ہے۔ یہ رشتہ ہر صورت قبول بھی ہوگا کیونکہ اگر اب اسی صورت حال میں محترمہ انکار کر دیتی ہیں، تو عمران خان اور پوری تحریک انصاف کی عزت کا جنازہ نہیں نکل جائے گا؟ لہٰذا کچھ بھی نہیں ہوگا اب یہ رشتہ قبول کرلیا جائے گا۔ پھر لوگوں کو دکھانے کے لیے نکاح کی تقریب منعقد کی جائے گی، فوٹو سیشن ہوگا۔ مدرسے کے بچوں کے ساتھ ولیمہ کیا جائے گا۔ اس طرح سے اس شادی اسکینڈل کو انجام تک پہنچایا جایا گا۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ایک طرف عمران خان صاحب آپ عوام میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ بہت بہادر ہیں، کسی سے ڈرتے ورتے بالکل بھی نہیں ہیں۔ دوسری طرف شادی کے معاملے پر آپ اتنی بزدلی کیوں دکھاتے ہیں؟
آپ نے اکتوبر 2014 میں ریحام خان سے شادی کی، اسی طرح سے معروف صحافی عمر چیمہ نے اُس شادی کی خبر بریک کردی۔ آپ اور آپ کی پارٹی کے اعلیٰ عہدیداران تردیدیں کرنے لگ گئے۔ لیکن دسمبر میں ایسے وقت میں آپ نے اپنی شادی کو ظاہر کیا جب آرمی پبلک سکول میں حملے کے وقت پوری قوم ایک سوگ میں مبتلا تھی؟ دلیری کے یہ کھوکھلے دعوے کس کام کے جب آپ کا عمل ہی بزدلی سے تعبیر ہے؟