عمران خان کی پہلی تقریر کیوں مایوس کن تھی؟
عاطف توقیر
ہمارے پی ٹی آئی کے دوستوں کی شاید یہ عادت سی بن چکی ہے کہ وہ عمران خان یا اپنی جماعت سے متعلق کسی بھی قسم کی تنقید سنتے ہیں، تو انہیں پہلا خیال یہی آتا ہے کہ یہ تنقید شاید کسی ایجنڈے، کسی غیرضروری وجہ یا کسی کسی سے پیسے لے کر کی گئی ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ یہی افراد چیخ چیخ کر یہ آواز بھی لگاتے ملتے ہیں کہ اس ملک میں صحافی، شاعر اور دیگر آواز اٹھانے والے افراد سچ بولنے سے قاصر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سچ سننے سے قاصر ہیں، وجہ یہ ہے کہ سچ کڑوا ہوتا ہے اور ہمیں ستر سال سے صرف میٹھے میٹھے کی عادت ہے۔
عمران خان کی گزشتہ روز کی تقریر اس لیے قابل شرم تھی کیوں کہ جب بھی کسی ملک کی وزارتِ عظمیٰ کا قلم دان کسی شخص کے سپرد ہوتا ہے، وہ شخص کسی سیاسی جماعت کا رہنما نہیں رہتا بلکہ ایک ریاست کا چیف ایگزیکٹیو بنتا ہے، مگر عمران خان کی کل کی تقریر مایوس کن حد تک کسی جلسے میں کی جانے والی ایک جذباتی تقریر سے زیادہ کسی درجے کی نہیں تھی۔
پی ٹی آئی کے دوستوں کا موقف ہے کہ ایوان میں شوروغل کی وجہ سے عمران خان اس بری تقریر پر مجبور ہوئے، تاہم یہ دلیل اس لیے غلط ہے کہ عمران خان کو ایسی صورت میں تقریر کرنے کی بجائے انتظار کرنا چاہیے تھا۔ یہ لوگ اگر دو گھنٹے بھی شور مچاتے رہتے، تو عمران خان تحمل سے ٹھہرے رہتے اور اگر بولتے، تو شوروغل پر توجہ دینے کی بجائے وہی کچھ بولتے جو انہیں بولنا تھا۔ اگر ایوان کا شور و غل انہیں ان کی اصل تقریر اور خیالات سے ہٹا سکتا ہے، تو پاکستان میں موجود مسائل کا انبار انہیں کیسے اپنا کام درست انداز سے کرنے دے گا؟
اس تقریر میں بنیادی نقائص یہ تھے کہ پوری دنیا اس لمحے اس تقریر پر نگاہ رکبھے ہوئے تھی اور یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ عمران خان ایک جذباتی اور عوامیت پسند رہنما کی بجائے بیس کروڑ عوام کے نمائندے کے طور پر بات کریں گے۔
اس تقریر میں فقط تین موضوعات پر بات کی گئی، جو کچھ یہ تھے۔
میں ملک کا پیسا لوٹنے والوں کا کڑا احتساب کروں گا اور کسی کو معاف نہیں کروں گا۔
دوسرا نکتہ تھا کہ وہ کسی کی مدد کے ذریعے وزیراعظم نہیں بنے بلکہ اپنی جدوجہد کے نتیجے میں بنے ہیں۔
انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوئی مگر دھاندلی، جو نہیں ہوئی، اس کی ذمہ دار اپوزیشن جماعتیں ہیں اور پوزیشن چاہے تو احتجاج کر لے، وہ اپوزیشن کو نہیں روکیں گے بلکہ احتجاج میں مدد دیں گے۔
یہ تقریر صرف تین نکاتی تھی، مگر اسی کے دونوں نکات پر متعدد سوالات اٹھائے سکتے ہیں اور خصوصاﹰ دوسرا نکتہ جو خود اپنے آپ ہی سے متصادم تھا۔ عمران خان صاحب کا موقف تھا کہ ان انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوئی۔ تاہم ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر ن لیگ اپنے دورحکومت میں ان کی بات مان لیتی تو آج انتخابات شفاف ہوتے۔ ان انتخابات سے قبل جس انداز کا میڈیا کریک ڈاؤن کیا گیا، جس انداز کی پری پول دھاندلی اور پھر جس طرح کی پوسٹ پول دھاندلی ہوئی، یہ بدقسمتی ہے کہ عمران خان نے اس کو کوئی بھی اہمیت دینے سے احتراز برتا۔
اس تقریر پر متعدد دیگر اعتراضات بھی کیے جا سکتے ہیں، تاہم بہ طور پاکستانی اس موقع پر کی جانے والی تقریر میں جو بنیادی امور صرف نظر کر دیے گئے، میرے لیے وہ زیادہ اہم ہیں۔
اس تقریر میں ملک میں جبری گم شدگیوں کے معاملے پر ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا۔
اس تقریر میں پشتونوں، بلوچوں، مہاجروں اور سندھیوں کی جانب سے ریاست سے شکایات یا ان کے ازالے کی بات نہیں کی گئی۔
اس تقریر میں ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق ایک جملہ بھی ادا نہ ہوا۔
اس تقریر میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات سے متعلق کچھ نہ کہا گیا۔
اس تقریر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کو موضوع نہ بنایا گیا۔
اس تقریر میں ملکی معیشت کو سنبھالنے کے لیے کرپشن کے پیسے واپس لانے کے علاوہ کوئی ذکر نہ ہوا۔
اس تقریر میں پاک امریکا تعلقات کی بابت بھی کوئی بات نہ ہوئی اور نہ ہی امریکا کی جانب سے پاکستان پر مسلسل دباؤ میں اضافے پر گفت گو کی گئی۔ اس تقریر میں تعلیم یا صحت کا موضوع بھی سرے سے غائب تھا۔
انتخابات جیتنے کے بعد عمران خان نے جو تقریر کی تھی، اس میں متعدد اہم امور پر بات کی گئی تھی اور یہ امید ہو چلی تھی کہ اپنی پہلی تقریر میں وہ حکومت کے سو روز کے منصوبے واضح کریں گے، تاہم بدقسمتی سے ان کی جانب سے کوئی بات نہ کی گئی۔
ہماری اب یہ سیاسی روایت بن چکی ہے کہ آپ کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو آپ کا رہنما کچھ بھی کہے آپ نے اس کا دفاع ہی کرنا ہے۔ پی ٹی آئی کے حامی اس معاملے میں دیگر سے ذرا مختلف نہیں، تاہم ایک امر جو انہیں دیگر کے مقابلے میں زیادہ نادرست بناتا ہے، وہ یہ ہے کہ غلط چیز کا دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ یہ اپنے مخالفین کے لیے جس انداز کی زبان استعمال کرتے ہیں، وہ یہ بتاتی ہے کہ یا تو ان لوگوں کو اختلاف رائے کا سرے سے ادارک ہی نہیں یا پھر عمران خان کی جانب سے کی گئی تربیت اور اپنے مخالفین کے لیے استعمال کی جانے والی زبان اب ایک گندی روایت کی طرح ہمارے نئے سیاسی کلچر کا حصہ بن چکی ہے۔ پاکستان کے سیاسی نظام میں کوئی تبدیلی تو جلد متوقع نہیں تاہم کم از کم یہ تبدیلی ضرور ہو چکی ہے کہ اب اس ملک میں اختلاف کے لیے پہلے سے انتہائی سکڑی ہوئی جگہ اور کم ہوتی چلی جائے گی اور شدت پسندی میں مزید اضافہ ہو گا۔