عمران کی سپورٹ کیونکر (حصہ دوم)
وقاص احمد
گزشتہ سے پیوستہ
4- “یہ کرپٹ ہیں”
کون کرپٹ ہے؟ اور اس بحث میں پڑے بغیر کہ پاکستان میں کتنے لوگ کرپٹ “نہیں ہیں”, ہم اس سے آگے کی بات کرتے ہیں۔ عوام کرپٹ کس کو کہتی ہے؟ جس کا عوام سے براہ راست رابطہ ہوتا ہے۔ تھانہ، کچہری، پٹواری، دیگر سرکاری دفاتر وغیرہ وغیرہ۔ یہ درست ہے کہ اس سطح پر کرپشن کا خاتمہ بھی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن کیا یہ درست ہے کہ آپ اپنا سچا جھوٹا کام کروانے کے لیے پولیس یا واپڈا والے کو رشوت دیں اور کرپٹ حکومت کو کہیں؟ “یہ بک گئی حکومت مارکہ ذہنیت؟” حکومت نااہل ہوسکتی ہے، حکومت لاپرواہ ہوسکتی ہے مگر فرد نکلوانے کے لیے پٹواری کو دیے گئے 500-1000 روپے میں حکومت کیسے کرپٹ ہوگئی؟
آئیے اب آپ کو میں سمجھاتا ہوں کہ اصل کرپٹ ہیں کون؟ ہماری بیوروکریسی۔ سول، جوڈیشل اور ملٹری۔ حکومت کے متوازی ایک اور حکومت۔ جو اتنی طاقتور ہے کہ منتخب حکومتیں الٹ دیتی ہے، جو اتنی دوزخ شکم ہے کہ کھربوں کھا کر ڈکار تک نہیں لیتی اور جو اتنی عیار ہے کہ غیرقانونی کام کرنے کے قانونی راستے بھی ڈھونڈ لیتی ہے۔ آپ کو روزمرّہ کی زندگی میں اسی بیوروکریسی سے رابطہ پڑتا ہے، آپ کی رشوتوں کا پیسہ ان کے ہی پیٹوں میں جاتا ہے اور ہم آپ جیسے معصوم “یہ بک گئی گورنمنٹ” ٹائپ نعرے لگاتے پھرتے ہیں۔ یہ تینوں طرح کی بیوروکریسی آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ہر آڑے وقت میں ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ برسبیل تذکرہ بتاتا چلوں کہ نیب میں پاکستان کے میگا کرپشن سکینڈلز کے نام سے ایک فائل کسی دور میں بنی تھی۔ ابھی سرد خانے میں ہے۔ اگر میری یاداشت درست کام کر رہی ہے تو یہ لگ بھگ 1083 ارب روپے کی کرپشن کی داستان تھی۔ اور کرپشن کی اس داستان میں سیاستدانوں کا حصہ ایک فی صد سے بھی کم تھا۔ اگر جمع تفریق آتی ہے آپ کو تو سمجھ جائیے کہ بقیہ کرپٹ کون ہیں۔
5- “ان کی ترجیحات درست نہیں”
تو حضور لے آئیے ناں اپنی ترجیحات۔ کسی چیز کو مکمل صحیح یا غلط کہنے کے لیے کم از کم موازنہ تو ضروری ہے۔ درست ہے کہ آپ کے مطابق ن لیگ کی حکومت میں انڈسٹری، سڑک، پل، میٹرو، موٹروے، انرجی وغیرہ کا شور زیادہ ہوتا ہے (حالانکہ بقیہ شعبوں میں بھی کام ساتھ کے ساتھ چلتا ہے) مگر ن لیگ کی ان ترجیحات کو غلط ثابت کرنے کے لیے آپ اپنی ترجیحات اور روڈ میپ تو لائیں۔ آپ نے صوبہ کے پی کے میں 5 سال حکومت کی اور آپ کے اپنے دعوؤں کے مطابق آپ کی دو اچیومینٹس غیر سیاسی پولیس اور درخت بازی ہے۔ حضور، قہقہہ معاف، کیا پاکستان کے مسائل غیر سیاسی پولیس اور جھوٹے سچے ایک ارب درخت تھے؟ آپ نے دوسروں کی ترجیحات کا مذاق اڑا لیا، آپ کی اپنی ترجیحات کیا ہیں؟ کیا یہ ہولناک مذاق نہیں کہ ایک صوبے سے شروع ہوکر پورے پاکستان پر نافذ کی جانے والی حکومت کے سربراہ کا ویژن اتنا سطحی ہے؟ یہ مت تصور کیجئے گا کہ میں درختوں کا مخالف ہوں لیکن جناب پاکستان کے مسائل کا حل درخت بازی تو نہیں۔ پاکستان شدید نوعیت کے امن و امان اور معاشی معاملات میں الجھا ہوا ہے۔ ہمارا بے روزگار نوجوان معاشی مجبوریوں کی وجہ سے غلط ہاتھوں چڑھ جاتا ہے۔ لاکھ برا کہہ لیں نوازشریف کو مگر اس کا درست یا غلط ویژن تو یہی تھا نا کہ بجلی پیدا کرو تاکہ کارخانے چلیں، تاکہ روزگار پیدا ہو، تاکہ لوگوں میں خوشحالی آئے۔ موٹرویز بناؤ، یہ تجارت کے راستے کھولے گی، تجارت سے خوشحالی آئے گی۔ کیا آپ کو اندازہ ہے اورنج ٹرین، میٹروز، موٹرویز، بجلی گھر اور پل سڑکیں بنانے سے کتنے لاکھ لوگوں کو براہ راست روزگار ملا؟ کوئی اندازہ ہے کہ کتنے کروڑ لوگ اس سے بلواسطہ مستفید ہوئے۔ سیمنٹ، سٹیل اور دیگر کتنے کارخانوں کا پہیہ چلنا شروع ہوا؟ اور ان کارخانوں میں کام کرنے والے کتنے مزدوروں کا چولہا ان کی وجہ سے جلا؟ یہ سب قرضے لیکر بنائے گئے لیکن کیا وہ قرضے بالآخر اس مزدور کی جیب میں نا گئے جو اس منصوبے پر کام کر رہا تھا۔ کیا سیف سٹی پراجکٹس پر لگائے کروڑوں روپیوں نے ہمارے شہروں کا امن و امان بہتر نہیں کیا۔ اور آپ کے پاس متبادل کیا تھا؟ غیر سیاسی پولیس؟ ایک ارب درخت؟ کوئی خدا کا نام لو، پہلے لوگوں کی روٹی پوری کر دو سویٹ ڈش بعد میں آ جائے گی۔
6- “پاکستان کی عالمی تنہائی”
بقول پی ٹی آئی کے ایک منہ پھٹ اور بدتمیز کارکن حمزہ علی عباسی، “کوئی پاکستانی پاسپورٹ پر تھوکتا تک نہیں”. درست جناب۔۔
وجہ بتانا پسند کریں گے اس کی؟
خفیہ فنڈز اور خفیہ پشت پناہی سے چلنے والے دو نمبر جعلی ڈگریوں کےکاروبار کے فنڈز پر چلنے والے ٹی وی چینل پر بیٹھ کر آپ نے پاکستان کے پاسپورٹ کی اوقات تو بتا دی لیکن اس کی وجہ بتاتے آپ کی اپنی روٹی خطرے میں پڑ گئی؟
کیا پاکستانی پاسپورٹ کی عزت سرے محل نے خراب کی یا نوازشریف کے اقامے نے؟؟
یا پھر پاکستان کا نام ڈبونے میں ہماری سکیورٹی پالیسیوں کا ہاتھ ہے؟
کیا دنیا میں ہم کرپٹ ملک کے طور پر بدنام ہیں یا پھر “دھشتگرد ملک” کے طور پر
کیا دنیا ہم پر لعنت ملامت ڈاکٹر عاصم کے پکڑے جانے پر کرتی ہے یا اسامہ بن لادن کے پکڑے جانے پر؟
کیا دنیا میں ہماری بدنامی کا باعث ایان علی کی “امپورٹ ایکسپورٹ” ہیں یا پھر طالبان اور دیگر انتہا پسندوں کی امپورٹ ایکسپورٹ؟
کیا دنیا ہمیں ڈبل کراس، فراڈیہ اور ناقابل اعتبار زرداری کے وعدے ایفا نا ہونے کی وجہ سے کرتی ہے یا پھر ہماری سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی گڈ طالبان بیڈ طالبان جیسی ڈبل گیمز پر؟؟
جب ان سوالوں کے جواب خود سے پوچھ لیں تو ضرور بتائیے گا کہ پاکستان کی عزت اور وقار کو عالمی سطح پر خاک میں ملانے کے ذمہ دار کون ہیں۔
7-؛”یہ پرچی سے دیکھ کر پڑھتا ہے”
ایمانداری کی بات ہے، اپنی تمام تر لفاظی کی صلاحیتوں، تمام تجربے اور تمام تر کوششوں کے باوجود میں اس بچگانہ احساس کمتری کی گہرائی کو نہیں سمجھ پایا جس نے پہلی دفعہ اس “اعتراض” کو اٹھایا اور جو آج تک اسی احساس کمتری میں مبتلا ہیں۔ میں واقعی یہ سمجھ نہیں پایا کہ یہ کیا کوئی اختلاف ہے، اعتراض ہے، ٹھٹھہ ہے، مذاق ہے، نااہلی ہے یا کیا ہے؟ مطلب اس سے فرق کیا پڑتا ہے۔ میں اس موضوع پر بحث ہی نا کرتا لیکن چونکہ آل یوتھ کے اعتراضات کی لسٹ میں یہ بھی شامل ہے اس لیے مجبوراً کہے دیتا ہوں کہ حضور پرچی سے دیکھ کر درست پڑھ لینا فی البدیہہ بونگیوں سے بہتر ہوتا ہے۔
8- “اسکی شکل ہی پرائم منسٹر والی نہیں”
یہی شکل ہے بھئی اب کیا کریں؟ آپ کا کرش تو جسٹن ٹروڈو ہے تو ہمیں اب ٹام کروز سے کم کیا چلے گا۔ مجبوری ہے ہمارے پاس سٹاک میں ایسی شکلیں ہی موجود ہیں۔ عجیب بیہودہ اور بچگانہ اعتراض ہے یہ بھی۔ مگر چونکہ لسٹ پر موجود ہے اس لیے شامل کرنا پڑا۔ کہتے ہیں کہ عمران کی شکل تو کم از کم ایک لیڈر والی ہے۔ تو بھائی اگلی دفعہ ہم فواد خان وغیرہ کو مقابلے پر لے آئیں گے۔
9- “اس کے منہ سے کلبھوشن کا نام کیوں نہیں نکلا”؟
حضور والا اس لیے کہ آپ کا اپنا ایک کلبھوشن گرفتار ہو کر اس وقت انڈیا میں پڑا ہے۔ یاد ہے وہ بچگانہ ڈرامہ جس کو کسی نابالغ نے ایسے تحریر کیا کہ وہ ایک کامیڈی شو بن کر رہ گیا۔ کہانی کے مطابق ہمارے ایک ریٹائرڈ کرنل صاحب کو “نوکری کے جھانسے” میں نیپال بلایا گیا اور وہاں سے انڈین خفیہ ایجنسیوں نے اٹھا لیا۔ جس دن سے یہ سرکاری کہانی سنی اس دن سے آج تک اس کے ذکر پر قہقہہ چھوٹ جاتا ہے۔ کلبھوشن کی کہانی کا انڈین ورژن ایسا ہی مضحکہ خیز تھا کہ کلبھوشن صاحب تو بہت شریف اور نیک انسان تھے، ایران میں کاروبار کرتے تھے اور آئی ایس آئی ان کو ایران سے اغواء کر لائی۔ (یہ دونوں طرف کی کہانیاں نجانے ایک جیسی کیوں ہوتی ہیں؟) تو سرکار، گزارش یہ ہے کہ وزرائے اعظم کا یہ وقار نہیں ہوتا کہ وہ جاسوسوں کے بارے گفتگو کرتے پھریں۔ اس گیم میں ایک بندہ آپ نے ان کا پکڑا ہوتا ہے اور دو بندے انہوں نے آپ کے پکڑے ہوتے ہیں۔ جس دن کلبھوشن پکڑا گیا اسی دن میں نے ایک پوسٹ کی تھی کہ یہ بندہ آرام دہ طریقے سے مہمان بن کر رہے گا اور پھانسی تو دور اس کے ساتھ کوئی برا سلوک بھی نہیں ہوگا۔ میرے اس خیال کی وجہ کوئی خفیہ ذرائع نہیں بلکہ تاریخ ہے جس میں آج تک کوئی بھارتی جاسوس پھانسی کی سزا نہیں پایا۔ یہ جاسوس بارگین چپس ہوتے ہیں۔ آپ ان کے بندے کو کچھ نہیں کہتے اور وہ آپ کے بندے کا خیال رکھتے ہیں۔ جنرل درانی کی کتاب کے بعد ذاتی گہرے دوستانہ تعلقات کی جن دیدے پھاڑ تفصیلات کا ہم غریبوں کو معلوم ہوا ہے اس کے بعد یہ خواہش شدید جہالت کی متقاضی ہے کہ آپ کے ملک کا وزیراعظم ان معاملات پر دنیا میں چیخ چلا کر اپنا حلق خشک کرتا رہے جسے آئی ایس آئی اور را کے سربراہ “گنڈا پوری شہد” کی ایک بوتل پر قہقہے لگاتے ہوئے حل کر لیتے ہیں۔ (منقول اسپائی کرانیکلز از جنرل درانی صاحب اور ایس اے دولت صاحب)
(جاری ہے۔۔۔)