قاتل کو قاتل ہی پکارا جائے!

حیدر راجپر

گزشتہ ماہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے لانڈھی جیل کے دورے کے دوران شاہزیب قتل کیس کے مجرم شاہ رخ جتوئی کی جیل کے اندر عیاشیاں دیکھ کر اسے ڈیتھ سیل منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔ جیسے ہی یہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو قوم پرست یہ کہنے لگے کہ شاہ رخ کو ایک سندھی ہونے کی سزا مل رہی ہے، مختلف لوگوں نے اپنی پروفائل پر بھی اس کی تصویر رکھ لی اور کئی قومپرستوں نے یہ تک کہہ دیا کہ اس بہادر کی مسکراہٹ ہی دشمنوں کے لئے کافی ہے۔

اب ظالموں کو بہادر کہنے اور قاتلوں کی مسکراہٹ پر فدا ہونے والوں کی ذہنی سطح کیا ہوتی ہے یہ اچھی طرح جانتے ہوئے بھی ان کو سمجھانے کی ناکام کوششیں کرتا رہا ، لیکن بدقسمتی سے ان پر میری باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔

آج ایک تصویر دیکھ کر اس معاملے پر ایک مرتبہ پھر کچھ لکھنے کا خیال آیا ۔ وہ تصویر تھی جس میں چند قومپرست شاہ رخ جتوئی کے حق میں احتجاج کر رہے تھے اور سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ ان کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہاتھوں میں اس جتوئی کی تصویر تھامے ہوئے تھے ، جس کے اوپر لکھا تھا کہ “میں سندھی ہوں ، قاتل نہیں” ۔ اب شاہ رخ کے امیر باپ نے ان لوگوں کو اس احتجاج کا کتنا معاوضہ دیا ہوگا ؟ یا سوشل میڈیا پر قاتل کی صفائیاں پیش کرنے والوں کی قیمت کیا ہے ؟ مجھے اس بات کا علم نہیں۔

لیکن ایک سندھی ہونے کے ناطے ان سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اگر مقتول آپ کا سندھی ہوتا تو کیا پھر بھی یہ رویہ اختیار کرتے اور قاتل کی رہائی کا مطالبہ کرتے ؟ ایک جانب ہمارے قوم پرست دوست خود کو لبرل اور انسان دوست سمجھتے ہیں اور دوسری جانب قاتلوں کی حمایت کرتے ہوئے کوئی شرم بھی محسوس نہیں کرتے۔

ہونا تو یوں چاہئے تھا کہ اگر ہمارا کوئی سگا بھائی بھی کسی کے قتل میں ملوث ہوتا تو ہم اس کے بھی خلاف ہوجاتے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ایسے معاملات پر قومپرستی کا چورن بیچا جارہا ہے جو پوری قوم کے لئے خطرناک ثابت ہوگا ۔ یقین کیجئے ایسی کئی قوموں کے نام صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں ۔ اگر اپنی قوم کا وجود قائم رکھنا ہے تو قاتل کو سندھی ، بلوچ ، پشتون یا پنجابی پکارنے بجائے قاتل ہی پکارا جائے۔‎

(متبادل مختلف موضوعات پر متنوع خیالات اور نکتہ ہائے نگاہ سے ماخوذ ہے۔ کسی مصنف کی رائے سے متبادل کا متفق یا نا متفق ہونا ضروری نہیں۔)