قدم بہ قدم جمہوریت

 وقاص احمد

ایک تجزیہ نما خیال کافی دن سے ذہن میں روک رکھا تھا کہ کاں صیب کا رونا پیٹنا بند ہو تو اس معاملے کو دیگر زاویوں سے بھی دیکھا جائے۔ اب چونکہ خاں صیب کے بین ختم ہی نہیں ہورہے اوراہلیان یوتھ بھی کاں صیب کو فل ٹائم ”بیٹا چڑھ جا سولی، رام بھلی کرے گا“ کے مشورے دے رہے ہیں تو میں نے سوچا اپنی گزارشات احباب کے سامنے رکھ دی جائیں۔ just a food for thought

آپ تاریخ اٹھائیں تو اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بھرپور سیاسی کردار ہونے کے باوجود مکمل سیاسی استثناء کا مزا بھی اٹھاتی رہتی ہے۔ ایک سے تعلق خراب ہوئے تو دوسرے سے دوستی گانٹھ لی، دوسرے سے معاملات بگڑنے شروع ہوئے تو پہلے والے کو دوبارہ لارے لگانے شروع کر دیئے۔ بوجوہ کوئی بھی سیاسی پارٹی ان کا ذکر بیچ چوراہے کرنے سے گریز کرتی رہی۔ میثاق جمہوریت کے بعد جب دو بڑی پارٹیوں نے ایکا کر لیا تو یہ تیسرا فریق اٹھا لائے کہ اگلے 15-20 سال تو اسی تیسرے کے ساتھ گزرجائیں گے لیکن ہوا یوں کہ تیسرے ہی سال اس فریق نمبر 3 سے بھی معاملات بگڑ گئے۔

بھلا ہو نوازشریف کا کہ اس نے خوف کے بت کو نا صرف پہلا گھاؤ لگایا بلکہ نام لے کر ایسا پاش پاش کیا کہ آج جمعہ جمعہ آٹھ دن کے انڈا ٹکی برگر اور فریش کریم پیسٹریاں بھی اسٹیبلشمنٹ کو للکارے مار رہی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اس وقت اگر ”نیوٹرل“ ہے تو وجہ صرف اتنی ہے کہ اس دفعہ کوئی ایسا دروازہ نہیں بچا جس پر دستک دےکر سیاست میں ری انٹری کی جا سکے۔ پچھلے سات سال سے خصوصاً پٹواریوں اور عموماً جیالوں سے لعن طعن سن رہے تھے اور اب یوتھیوں نے بھی ڈی جے بٹ کی دھن پر ان کا فوجی بینڈ بجانا شروع کر دیا ہے۔ آپ کاں صیب کو جتنا بھی برا کہیں وہ کم ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ چاہے نا دانستگی میں ہی سہی، کاں صیب نے اسٹیبلشمنٹ کو ایسی بند گلی میں دھکیل دیا ہے جہاں سے نکلنے کا راستہ بند اور چھتوں سے پتھر برس رہے ہیں۔ ناقابلِ تسخیر کا زعم کب کا ہوا ہوچکا اب صرف عزت بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔

باوجود اس کے کہ یوتھیے آج بھی ایک سیٹی پر ”وردی کے لیے جان بھی حاضر ہے“ کا نعرہ لگانے کے لئے تیار ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یوتھیوں کا لیڈر اپنی نااہلی، بدتمیزی، ضد اور معاملہ شناسی سے قطعی عاری ہونے کی وجہ سے “only option” کی کیٹیگری سے نکل کر “no option” کیٹیگری میں جا چکا ہے۔ اس لئے اسٹیبلشمنٹ کی حالت ریلوے اسٹیشن پر کھڑی اس کاجول جیسی ہوگئی ہے جسے کوئی بھی شاہ رخ خان ہاتھ بڑھا کر ٹرین پر بٹھانے کو تیار نہیں اور اس وقت یہ کاجول آنسو بہاتے ہوئے سبھی کو نیوٹرل انداز میں ٹا ٹا بائے بائے ہی کر رہی ہے۔

صاحبو! کیا یہ پراگرس ہے؟  یقین مانیے یہی پراگرس ہے۔ جمہوریت کے گھر کی دیواروں میں لگائی گئی نقب کے بے شمار شگافوں میں جتنے شگاف پر ہوتے جائیں گے، آئین پر ڈکیتی اتنی ہی مشکل ہوتی جائے گی اور وہ وقت ضرور آئے گا جب چوکیدار آپ کو جمہوریت کے گھر کے باہر دروازے پر پہرہ دیتا نظر آئے گا جو کہ اس کا اصل کام ہے۔ جب گھر کے مکینوں کو چوکیدار سے خوف نہیں آئے گا بلکہ بھروسہ ہوگا۔ جب آئین شکن ویسے ہی آئین کے محافظ بن جائیں گے جیسے مہذب جمہوریہ میں ہوتے ہیں۔ ہر قدم وہ دن مذید قریب لا رہا ہے اور موجودہ صورتحال اسی سمت اٹھتا ایک مزید قدم ہے۔

آخر میں میرا ایک پسندیدہ ترین قول جو میں بار بار دہراتا رہتا ہوں:

“If you make a god to bleed, people will stop believing in him”۔