قراردادِ ’پاکستان‘ میں لکھا کیا تھا؟
عاطف توقیر
جب یہ قرارداد منظور ہوئی تھی، تو اس کا نام قراردادِ لاہور تھا بعد میں اسے قراردادِ ’پاکستان‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس قرارداد میں کیا کچھ کہا گیا تھا اور آیا آج 78 برس گزرنے کے بعد ہم اس قرارداد میں طے کیے گئے فریم ورک اور روڈ میپ پر قائم ہیں یا کیا یہ اہداف حاصل کیے جا چکے ہیں؟ کوئی بھی دوسرا تبصرہ کرنے کی بجائے، آئیے اس قرارداد کو پڑھتے ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اس قرارداد کے نام سے تو واقف ہیں، مگر اب تک بہت کم افراد نے اس قرارداد کو ٹھیک سے پڑھا ہو گا۔ اس قرارداد کا متن یہ ہے۔
1. آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ سیشن مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ اور شوریٰ کے اقدام کی منظوری اور توثیق کرتے ہوئے، جیسا کہ ان کی قرارداد مورخہ 27 اگست، 17 و 18 ستمبر اور 22 اکتوبر 1939ء اور 3 فروری 1940ء سے ظاہر ہے، آئینی قضیے میں اس امر کے اعادے پر زور دیت اہے کہ 1935ء کے حکومت ہند ایکٹ میں تشکیل کردہ وفاق کی منصوبہ بندی ملک کے مخصوص حالات اور مسلم ہندوستان دونوں کے لیے بالکل ناقابلِ عمل اور غیر موزوں ہے۔
2. یہ (سیشن) مزید براں پرزور طریقے سے باور کرانا چاہتا ہے کہ تاجِ برطانیہ کی جانب سے وائسرائے کا اعلامیہ مورخہ 18 اکتوبر 1939ء، حکومتِ ہند ایکٹ 1935ء کی اساسی پالیسی اور منصوبے کے ضمن میں اس حد تک اطمینان بخش ہے، جس حد تک مختلف پارٹیوں، مفادات اور ہندوستان میں موجود گروہوں کی مشاورت کی روشنی میں اس پر نظرِ ثانی کی جائے گی۔ مسلم ہندوستان تب تک مطمئن نہیں ہو گا، جب تک مکمل آئینی منصوبے پر نئے سرے سے نظرِثانی نہیں کی جائے گی اور یہ کہ کوئی بھی ترمیم شدہ منصوبہ مسلمانوں کے لیے صرف تبھی قابلِ قبول ہو گا اگر اس کی تشکیل مسلمانوں کی مکمل منظوری اور اتفاق کے ساتھ کی جائے گی۔
3. قرار پایا ہے کہ یہ آل انڈیا مسلم لیگ کا مسلمہ نقطۂ نظر ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی آئینی منصوبہ تب تک قابلِ قبول نہیں ہو گا، جب تک وہ ذیل کے بنیادی اصول پر وضع نہیں کیا جائے گا، وہ یہ کہ جغرافیائی طور پر ملحق اکائیوں کی علاقائی حدبندی کر کے ان کی آئینی تشکیل اس طرح کی جائے کہ جن علاقوں میں مسلمان عددی طور پر اکثریت میں ہیں، جیسا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصے، ان کو آزاد ریاستوں میں گروہ بند کر دیا جائے اور اس طرح تشکیل پانے والی یہ اکائیاں مکمل آزاد اور خودمختار ہوں گی۔
4. یہ کہ ان اکائیوں میں موجود خطوں کے آئین میں اقلیتوں کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذہبی، ثقافتی، معاشی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب، مؤثر اور لازمی اقدامات یقینی بنائے جائیں اور ہندوستان کے دوسرے حصے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، آئین میں ان کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذہبی، ثقافتی، معاشی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب، مؤثر اور لازمی اقدامات عمل میں لائے جائیں گے۔
5. یہ سیشن مزید برآں عاملہ کمیٹی کو ان بنیادی اصولوں کے مطابق، دفاع، خارجہ امور، مواصلات، کسٹم اور دیگر ضروری معاملات کے لحاظ سے مفروضے کو حتمی شکل دینے کی غرض سے، آئین سازی کی اسکیم وضع کرنے کا اختیار دیتا ہے۔