قندوز کے حالات پر ایک نظر

مہناز اختر

افغانستان کا شمالی صوبہ قندوز یا کندز تاریخی اہمیت کا حامل خطّہ ہے جو مختلف ادوار میں میں مختلف حکومتوں کے زیر انتظام رہا. دوسری اور تیسری صدی عیسوی میں یہ ایک پرامن خطہ تھا اور بدھ مت کی تعلیمات کا اہم مرکز شمار کیا جاتا تھا۔ تیموریان (خاندان) کے دور حکومت میں اسکا نام قندوز یا کندز پڑا.گزشتہ صدی کے ابتدائی عشروں میں جب افغانستان میں درّانی حکومت قائم تھی اس وقت اسکا شمار افغانستان کے امیر اور خوشحال ترین صوبے میں ہوتا تھا. صوبہ قندوز کی آبادی ساڑھے نو لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے اور آبادی کی اکثریت سنّی عقیدہِ اسلام پرعمل پیرا قبائل سے تعلق رکھتی ہے. صوبہ قندوز کے صدر مقام شہر قندوز کی آبادی ڈھائی لاکھ سے زائد ہے اور یہ افغانستان کے گنجان ترین شہروں میں سے ایک ہے۔

قندوز پر طالبان حکومت کے وقت سے طالبان کا ریاستی اور نفسیاتی کنٹرول رہا ہے اور آج جبکہ یہ صوبہ افغانستان حکومت کے کنٹرول میں ہے تب بھی اس علاقے کی قبائلی اکثریت کو طالبان حامی اور سہولت کار کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ قندوز میں جاری طالبان اور افغان فورسز کے درمیان مسلح کاروائیوں اور حملوں کی شروعات 2001 سے ہوئی اور فریقین کا مقصد علاقے کا مکمل کنٹرول حاصل کرنا تھا نیز افغانستان حکومت کا مقصد اس علاقے سےشدت پسندوں کا مکمل صفایا کرنا بھی ہے۔ افغانستان حکومت کا مؤقف ہے کہ ان مسلح کاروئیوں کے نتیجے میں طالبان کو پسپائی حاصل ہوئی ہے اور طالبان کے بہت ہی اہم قائدین ان حملوں کے نتیجے میں مارے گئے ہیں. سال 2001 میں افغان جنگ کے دوران جب نیٹو افواج قندوز پر قابض ہوئی تو کہا جاتا ہے کہ قبضے سے قبل جنرل پرویز مشرف نے امریکن صدر بش کی رضامندی سے ایک آپریشن Kunduz Airlift کیا جسکا مقصد وہاں موجود اہم پاکستانی آفیشلز کوبحفاظت نکالنا تھا مگر خبر یہ بھی ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے اس آپریشن کے ذریعے اہم طالبان کمانڈرز, قائدین اور سہولت کاروں کو بھی وہاں سے بحفاظت نکال کر انہیں پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کیں اسی وجہ سے اس آپریشن کو ازراہ طنز Operation Evil Airlift بھی کہا جاتا ہے.

افغانستان کی حکومت ہر بار پاکستان کو وہاں ہونے والی دہشت گردی اور سیاسی عدم استحکامم کا ذمہ دار قرار دیتی ہے اسکا مؤقف ہے کہ افغانستان میں شدت پسندی کا زہر پھیلانے والے مدارس پاکستان کی آشیرباد سے پھل پھول رہے ہیں. یاد رہے کہ افغانستان آئے دن ان شدت پسندوں کی جانب سے کئیے جانے والے جان لیوا حملوں کا شکار رہتا ہے یہاں تک کہ ان شرپسندوں کے شر سے مساجد اورمعصوم بچے تک محفوظ نہیں. افغان وار کی شروعات سے لیکر اب تک شدت پسندوں نے افغان فورسز اور اتحادیوں سمیت عوامی مقامات پر متعدد جان لیوا حملے کیئے ہیں جسکے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ شہری جان بحق ہوئے ہیں.

صوبہ قندوز کے ضلع دشتِ آرچی کے زیادہ تر علاقے طالبان کے کنٹرول میں ہیں اور یہاں افغان فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان جھڑپیں معمول کی بات ہیں مگر گزشتہ مہینوں سے یہاں فریقین کی جانب سے حملوں میں شدت آگئی تھی افغانستان حکومت کے مطابق یہ علاقہ شدت پسندوں کا سب سے مضبوط گڑھ ہے . دشتِ آرچی میں پچاس سے زائد اسکول اور مدارس ہیں جن میں سے صرف 14 اسکولوں کا کنٹرول گورنمنٹ کے ہاتھ میں ہے باقی تمام درسگاہوں پر طالبان کا کنٹرول ہے . رواں ہفتے 2 اپریل کو دشتِ آرچی میں قائم مدرسہ ہاشمیہ میں دستاربندی کی تقریب جاری تھی اسی دوران افغان فضائیہ نے مدرسہ پر بھاری اسلحہ کی مدد سے فضائی حملہ کیا جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں اور مقامی ذرائع کے مطابق حملے کے نتیجے میں 40 بچے بھی جاں بحق ہوئے . اسکے برعکس افغان حکومتی ذرائع کے مطابق اس وقت وہاں بڑی تعداد میں اہم طالبان شخصیات موجود تھیں حملے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر طالبان شدت پسندوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں اور چند شہری بھی ان حملوں کی نظر ہوئے ہیں مزید یہ کہ طالبان نے ان حملوں کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے.

قندوز حملے پر ہر بار کی طرح اس بار بھی دو مختلف آراء پائی جاتی ہیں ایک طرف تو اتنی بڑی تعداد میں معصوم بچوں کی اموات پر شدید غم و غصّہ پایا جاتا ہے اور عالم اسلام کو لعنت ملامت کی جارہی ہے کہ وہ مدارس کہ بے گناہ بچوں کی اموات پر مجرمانہ خامشی اختیار کیئے ہوئے ہے . دوسری جانب یہ تاْثر بھی پایا جاتا ہے کہ مدرسہ ہاشمیہ دشت آرچی میں دہشت گردوں کا سب سے بڑا مرکز ہے اور یہاں دینی تعلیم کے نام پر معصوم بچوں کو مذہبی شدت پسندی کی تعلیم دے کر مزید دہشت گرد تیار کیئے جاتے ہیں اور ان مدرسوں سے فارغ التحصیل افراد مساجد , امام بارگاہوں, عوامی مقامات پر جان لیوا حملہ کرکے معصوم اور بے گناہ افراد سے جینے کا حق چھین لیتے ہیں.

عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق افغان وار کے دوران بڑے پیمانے پر عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں ہیں صرف سال 2017 میں ہلاک یا شدید زخمی ہونے والے عام افراد کی تعداد 10,000 سے زائد ہے . شدت پسندوں کی جانب سے جنگ کا صرف ایک اصول ہوتا ہے کہ “محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے” اسلیئے ان سے انسانی حقوق یا تکریم انسانیت کا سوال کرنا ہی حماقت ہے مگر افغانستان کی حکومت چوتھے جینیوا کنونشن GCIV کے تحت اپنی جانب سے کیئے گئے تمام حملوں میں ہونے والی عام شہریوں کی ہلاکت پر اقوم متحدہ اور مہذب دنیا کے آگے جواب دہ ہے اور اس حالیہ حملے میں ہونے والی معصوم بچوں سمیت عام شہریوں کی ہلاکت کو بھی جنگی جرائم میں شامل کیا جائے گا, کیونکہ یہ بات قرین از قیاس تھی کہ اس قسم کی تقریب میں عام شہریوں کی موجودگی یقینی ہوتی ہے.

کسی بھی جنگ میں انسانی المیوں کا جنم لینا یقینی سی بات ہے اور اس طرح معصوم بچوں کی ہلاکت کی کوئی توجیح اخلاقی طور پر قابل قبول نہیں. اگر افغانستان کی حکومت اس حملے سے یہ نتائج اخذ کررہی ہے کہ اسنے حالیہ حملوں میں شدت پسندوں کو شکست دے دی ہے تو یہ صرف اور صرف ایک حماقت ہے کیونکہ اس حملے کے نتیجے میں ہونے والی معصوم بچوں کی ہلاکت نے اس شدت پسندی کو مزید تقویت دے دی ہے اور آنے والے دنوں میں افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک اسکے نتائج کو بھگتیں گے . شدت پسند اس حملے کے فوراً بعد بنائی جانے والی ویڈیو ( جسمیں انسانوں کی کٹی پھٹی لاشیں (بشمول سفید کفن میں لپٹےمعصوم بچے), تڑپتے زخمی اور انسانی خون سے رنگے قرآنی نسخوں) کو دکھا کر نا صرف عوامی رائے عامہ کو ہموار کررہے ہیں بلکہ نئے جہادی اور خودکش بمبار تیار کرنے کی تیاری میں لگے ہیں. ایسے میں مہذہب دنیا کو خود سے ایک سوال کرنا ہوگا کہ کیا شدت پسندی کو شدت پسندی کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے ؟