لنگوٹی میں پھاگ کھیلنے کی خواہش
وقاص احمد
ہماری ایک دور پار کی جاننے والی ایک سادہ لوح دیہاتی خاتون تھیں۔ ایک دن باتوں باتوں میں کسی نے شہروں کے ملاوٹ شدہ دودھ کا شکوہ کیا تو وہ گاؤں کے خالص دودھ کی تعریف کرنے لگیں۔ ہم میں سے کوئی شرارتی بندہ ان کی سادہ لوحی کو جانتے ہوئے چھیڑ کر کہنے لگا کہ آنٹی جی ہم نے سنا ہے خالص دودھ تو تھوڑا بھی کافی ہوتا ہے۔ آنٹی کہنے لگیں، “ہاں اور نہیں تو کیا۔ ایک کلو دودھ آتا ہے گھر۔ صبح کے ٹائم میں، میرا میاں، میری ساس اور بچے چائے پیتے ہیں، پھر سب ہی شام کو چائے پیتے ہیں۔ میاں کو میٹھا پسند ہے اس لیے ان کے لیے روز کوئی کھیر فرنی بھی بنا دیتی ہوں۔ اس دودھ کی ملائی سے اچھا خاصہ مکھن بھی روز نکل آتا ہے۔ رات کو سونے سے پہلے میں اور میاں صاحب چائے پیتے ہیں”۔ اب ہم لوگوں کا دل ہی دل میں ہنس ہنس کر اتنا برا حال ہورہا تھا کہ آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے لیکن ہم بھی کہاں باز آنے والے تھا۔ بمشکل ہنسی روک کر پوچھا تو آنٹی دودھ بچ بھی جاتا ہے کیا؟ آنٹی بولیں ہاں جو بچ جاتا ہے اس کا میں رات کو دہی جما لیتی ہوں۔
مملکت الباکستان میں ایسے سادہ لوح لوگوں کا ایک جم غفیر موجود ہے۔ ان نالائق لوگوں میں ہمارے موجودہ وزیراعظم بھی شامل ہیں جو اب سے ایک سال پہلے قرضہ لینے کو بھیک مانگنے کے مترادف، غیر ضروری اور حکمرانوں کی کرپشن کا ذریعہ بتاتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ اس ملک میں اتنا کچھ موجود ہے کہ یہ ملک قرض لیئے بغیر بھی چل سکتا ہے بشرطیکہ لیڈر شپ مخلص اور ایماندار ہو۔ خیر یہ غلط العام تو الحمداللہ جھوٹ ثابت ہو ہی گیا مگر اب زرا ایک نظر مملکت خداداد کے عام عوام کی کرتوتوں، خواہشات اور ہمارے دستیاب وسائل پر ڈالیے۔
22 کروڑ میں سے 22 لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہے، اس میں سے 300 ایسے ہیں جو 80٪ ٹیکس کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔
اس چٹکی برابر ٹیکس میں سے ہمیں؛
1- اسلحہ امریکہ اور روس کا خریدنا ہے
2- تعلیم ہمیں امریکی سٹیڈرڈ کی چاہیے
3- صحت کی سہولیات ہمیں کینیڈین پرائیویٹ ہسپتال لیول کی چاہیں
4- فلاحی مراعات اور انکم سپورٹ ہمیں اسکنڈے نیوین ملکوں کی چاہیے
5- جاب اور کاروباری سکیورٹی ہمیں خلیجی ریاستوں کے شہریوں والی چاہیں
6- انفراسٹرکچر سے ہمیں ویسے ہی نفرت ہے مگر بنانا ہو تو یورپ کے مقابلے کرنے ہیں۔
7- بجلی گیس ہمیں پوری چاہیے، بل ہم نے آدھے بھی نہیں دینے۔
پنجابی کا ایک محاورہ انہی لوگوں کے لیے ہے “پلے نیئں دھیلا تے کردی پھرے میلہ میلہ۔”
قرضے کو ہم بھیک اور سازش سمجھتے ہیں جسے لینے سے بہتر خودکشی کرنا لگتا ہے
تیل اور گیس ہماری نکلتی نہیں
معدنی ذخائر کے منصوبوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے سانپ بن کر بیٹھے ہیں
دھرنے، لاک ڈاؤن، ریاستی اداروں پر چڑھ دوڑنے کی دہشتگردی، الیکشن چوری، ہنگامے اور فساد ہمیں “تبدیلی” کا پیش خیمہ لگتے ہیں
کام کرنے والوں کو ہم کرپٹ کہتے ہیں
کام چور نکمے بھکاری کو ہم ایماندار اور مخلص گردانتے ہیں اور پھر کہتے ہیں “کرپٹ حکمرانوں نے چالیس سال اس ملک کو لوٹ کر اس کا بیڑہ غرق کر دیا ورنہ پاکستان میں کس شے کی کمی ہے”۔
ایمانداری کی بات ہے کہ میں آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ یہ ڈائیلاگ بولنے والوں سے ان کے دماغی نقصان پر اظہار افسوس کروں، اپنا سر دیوار میں دے ماروں یا پھر ان کو زمین پر لٹا کر۔۔۔۔
شاہد آفریدی نے کچھ سال پہلے ایک ٹی وی انٹرویو میں ایک متنازعہ بات کہی تھی کہ یہ جو ہم راگ الاپتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں ٹیلینٹ کی کوئی کمی نہیں یہ ٹوٹل بکواس ہے۔ کوئی ٹیلنٹ ویلنٹ نہیں ہے۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم اس وقت اپنے بہترین میسر ٹیلنٹ سے بنائی گئی ہے۔ اس وقت میڈیا کے شوروغوغا کے باوجود میں آفریدی کی بات سے مکمل متفق تھا۔ ہم نے اپنے آپ کو دھوکا دینے کے لیے یہ فضولیات اپنی گفتگو میں ٹیپ کے جملے کی طرح شامل کی ہوئی ہیں کہ پاکستان میں ٹیلینٹ کی کمی نہیں۔ یا پاکستان میں معدنی ذخائر کے انبار ہیں اور ہمیں کسی شے کی کمی نہیں سوائے اس کے کہ آسمان سے حضرت مسیح اتریں اور اس ملک کی کایا پلٹ دیں۔ ٹوٹل بکواس۔ اس غلط فہمی کو دور کریں کہ ریاست پاکستان کے پاس قدرتی خزانوں کے کوئی انبار لگے ہوئے ہیں جو منکشف ہونے کے لیے صرف کسی “ایماندار لیڈر” کے جنت سے براہِ راست نازل ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔
کبھی ایمانداری سے حساب لگائیں کہ وافر مقدار میں ہے کیا ہمارے پاس؟
خاں صاحب کے 12 موسم اور نمک کی کانیں؟
تیل اور گیس تو اتنا بھی نہیں نکلتا کہ ہم اپنی آدھی ضروریات بھی پوری کر سکیں۔
تھر کے کوئلہ کی کھپ ڈالی ہوئی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کوئلے کی کوالٹی اس قابل نہیں کہ اسے ایکسپورٹ کیا جاسکے اس لیے وہیں بجلی کے کارخانے لگا لئے ہیں۔
معدنیات جو بلوچستان میں مبینہ طور پر بیش بہا موجود ہیں ان کو نکالنے کی ٹیکنالوجی ہمارے پاس ہے نہیں اور جن کے پاس ٹیکنالوجی ہے ان کے خلاف ہماری سپریم کورٹ فیصلے دیکر بیٹھی ہے، الٹا ہم انہیں جرمانہ بھی بھر رہے ہیں۔
سولر پاور کا ایک ہی بڑا منصوبہ ایک وزیراعلی نے لگانے کی جسارت کی اور آج وہ منصوبہ نیب میں قائداعظم سولر پاور پلانٹ “سکینڈل” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہر وہ ٹٹ پونجیا جسے سولر پاور پینل کے سپیلنگ نہیں آتے وہ اس پلانٹ کی کیپیسٹی پر تجزیہ نگاری کرتا پھرتا ہے۔
ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے کوشش کرو تو سیاسی مخالف سڑکوں پر احتجاج برپا کروا دیتے ہیں۔
خسارے کرنے والے قومی ادارے بیچنے کی کوشش کرو تو فساد مچا دیا جاتا ہے۔
ٹیلنٹ کو ہی جانچ لیں۔ دنیا کا ہر منفی کام، ہر فراڈ، ہر دھوکا دہی کا طریقہ ہمارے ہاں موجود ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ سے لیکر انٹرنیشنل کاروبار میں دھوکا دہی اور دغا بازی ہماری پہچان ہے۔
یو اے ای اور سعودی عرب نے برسوں پہلے ہمارے باسمتی چاول کی امپورٹ اس لیے بند کی تھی کیونکہ ہم چاولوں کی بوریوں میں ہیروئن اور چرس بھی سمگل کرتے تھے۔
90 کی دہائی کی اخیر
میں جب انڈین نوجوان گھر بیٹھے انٹرنیٹ سروسز سے ہزاروں لاکھوں اور کروڑوں کما رہے تھے، عین اسی دور میں عالمی مارکیٹ نے عمومی طور پر پاکستان سے ڈیٹا انٹری، مارکیٹنگ اور ویب ڈیویلپمنٹ کے کام کا اس لیے بائیکاٹ کیا ہوا تھا کہ سینکڑوں ہزاروں واقعات ایسے ہوئے تھے جس میں پاکستانیوں نے باہر سے ملنے والے آرڈر کے پیسے ایڈوانس میں پکڑے اور یا تو فرار ہوگئے یا پھر مطلوبہ معیار کا کام نہیں کر کے دیا۔ آج ہمارا پڑوسی ملک دنیا کی سب سے بڑی آئی ٹی صعنت ہونے کا فخر سر پر سجائے ہوئے ہیں اور ہمارا فخر کراچی کے وہ دو نوجوان ہیں جنہوں نے دنیا کا پہلا کمپیوٹر وائرس ڈیزائن کیا۔ پڑوسی ملک کا شہری گوگل کا سی ای او بن گیا اور میرے شہر میں ایک صاحب مائیکروسافٹ کے فراڈ امتحان اور جعلی سرٹیفکیٹ (MCSE) بیچ بیچ کر اس لیول پر پہنچ گئے کہ آج ان کے دفتر کے باہر دنیا کی قیمتی ترین سپورٹس کاروں کی بہار ہوتی ہے۔ کبھی اس بندے کو ہاتھ ڈال کر دیکھیں، آپ ایگزیکٹ اور بول چینل والے شعیب کو بھول جائیں گے۔ لیکن آپ اس کو ہاتھ نہیں لگا سکتے، کیوں؟ کیا آپ شعیب کو پکڑ سکے؟ نہیں ناں؟ بس وہی وجہ یہاں بھی ہے۔ ہر کام میں منفیت؟ ہر کام میں دھوکا دہی؟ ہر کام میں فراڈ؟ ٹیکسٹائل کے شعبے میں زوال کے بے شمار اسباب میں کلائنٹ کے ساتھ دھوکا دہی، منشیات کی سمگلنگ، پیسے کا فراڈ اور مطلوبہ کوالٹی مہیا نا کرنا ہے۔ تو بھائی آخر اکڑ کس شے کی ہے؟ بیچتے کیا ہو تم؟ ایسے کون سے قارون کے خزانوں کی امیدیں لگا کر بیٹھے ہو جو زمین کا سینہ پھاڑ کر باہر نکلنے کو بیتاب ہیں مگر انتظار مخلص لیڈر کا ہے؟ اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھا ہے؟ اپنی چور بازاری، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، مذہب فروشی، ضمیر فروشی، انفرادی کرپشن، اجتماعی کرپشن، دھوکا دہی، معاملات کی غیر شفافیت اور فراڈ کے نت نئے طریقوں پر نظر ڈالی ہے؟
یہ جو تمہارے حکمران ہیں، یہ تم میں سے ہی اٹھتے ہیں۔ پاکستان ان کی اماں کے جہیز میں نہیں آیا کہ یہ اپنی جیبوں سے تم لوگوں کے لیے سہولیات فراہم کرتے پھریں۔ میں اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر قسم اٹھانے کو تیار ہوں کہ بحیثیت قوم ہم نے کوئی ایک ایسا قومی فرض نہیں جو پورا کیا ہو۔ تو جب فرض پورے ہی نہیں کیے تو حقوق کی ڈیمانڈ کرنے سے پہلے ڈوب کیوں نہیں مرتے؟ مانا کی پاکستان میں دنیا کے دیگر ممالک کی طرح کرپشن ہوتی ہے۔
مانا کہ حکمرانوں اور انتظامیہ کی اہلیت میں جھول اور ترجیحات میں خرابیاں ہیں
مگر کسی بھوکے پیاسے، بے روزگار، بنا علاج مرتے شخص کی تصویر اپنے فیس بک پر جڑ کر حکمرانوں کو عذاب الہٰی کے بھاشن دینے سے پہلے یہ ذہن میں رکھو کہ دنیا کی تاریخ میں کسی حکمران نے آج تک اپنی ذاتی جیب سے عوام کی ضروریات پوری نہیں کیں اور نا ہی یہ آئیندہ ہوگا۔ ٹیکس ہم نے دینا نہیں، بجلی گیس ہم نے چوری کرنی ہے، خسارے میں چلتے قومی اداروں کو ہم نے بیچنے نہیں دینا اور اپنا شملہ اونچا رکھنے کے لیے بجٹ کا 25 فی صد تو سیدھا توپ و تفنگ پر اڑا دینا ہے تو حضور درمیانے درجے کی صحت و تعلیم کی سہولیات تو برداشت کرنا پڑیں گی۔ کرپشن کو خزانہ خالی ہونے اور سہولیات زندگی نا ملنے کا نعرہ لگانے والے وزیراعظم نے حال ہی میں اعتراف کیا اور بالآخر درست کہا کہ ایک فی صد لوگ ٹیکس دیتے ہیں، اس پیسے میں معیاری تعلیم و صحت کی سہولیات تو نہیں مل سکتیں۔ قرضے بھی تو پھر لینے پڑیں گے اور یہ ڈرامہ بازی بند کرو کہ پچھلے 10 سال یا 30 سال یا 70 سال میں ہمارے “کرپٹ حکمرانوں” نے پاکستان کے بچے بچے کو مقروض کردیا۔ یہ قرضے ہم نے مل کر اپنے اوپر چڑھائے ہیں۔ اس ذمہ داری سے ہم جان نہیں چھڑا سکتے۔ میں آج بنا تخصیص تمام سیاستدانوں اور فوجی آمروں کے حوالے سے آپ سے پوچھتا ہوں۔ کوئی ایک کرپٹ ہوگا؟ دو ہوں گے؟ تین چار لیڈران کرپٹ ہوں گے؟ سارے تو کرپٹ نہیں ہوسکتے ناں؟ تو پھر یہ مبینہ “70 سال کے گند” کا ذمہ دار ڈھونڈتے وقت جہاں دوسروں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں وہاں ایک بار اپنے گریبان میں بھی جھانک لیں۔ ریاست اگر ماں کی طرح ہوتی ہے تو اس کے شہری اپنی ماں کے کماؤ پوت ہوتے ہیں۔ اگر بیٹے ہی نکھٹو نکلیں تو ماں کو گھر کی دال روٹی چلانے کے لیے ادھار، قرضے، پیکج اور بھیک ہی مانگنی پڑتی ہے۔ اگر بیٹے ماں کو ساگ پات جتنے ہی پیسے دیتے ہیں تو پھر گھر میں ساگ پات ہی بنے گا۔ مرغ مسلم فرائی نہیں ہوں گے نا ہی بکروں کی سجیاں چڑھیں گی۔ پرسوں زرداری کی حکومت تھی، کل نواز شریف کی اور آج عمران خاں کی، آنے والے کل میں کوئی اور ہوگا۔ مگر یہ بات لکھ کر رکھ لو کہ اگر آپ لوگ وہی کرتے رہے جو آپ پچھلے ستر سال سے کرتے آرہے ہیں تو آپ چاہے عبدالستار ایدھی اور حکیم سعید کو دوبارہ زندہ کر کے اپنے لیڈر بنا لیں، یہ ملک پھر بھی ایسے ہی چلے گا جیسے چلتا آرہا ہے۔ اور اگر آپ لوگوں نے اس ملک کو ایسے ہی چلانا ہے تو براہِ مہربانی، لنگوٹی میں پھاگ کھیلنے کی خواہش ختم کردی۔