لٹل پیرس کا گورنر ہاؤس اور میرے بچپن کی حسرت

 ڈاکٹر راحت جبیں

گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول پوسٹل کالونی کوئٹہ کے سامنے سے جب بھی میرا گزر ہوتا ہے تو سڑک کے مخالف سمت میں خاردار باڑ والی اونچی چار دیواری کے اوپر سدا بہار کے بلند و بالا درختوں کے بیچ  جھانکتی عظیم الشان بلڈنگ ہمیشہ سے ہی مجھے اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ اس عمارت سے میری انسیت آج کی نہیں بلکہ برسوں پرانی ہے۔ اس وقت میں مذکورہ بالا اسکول  میں درجہ دوئم میں زیر تعلیم تھی۔ میرے نانا جان مرحوم کی سیکریٹریٹ میں سرکاری ملازمت تھی اور وہ  وائیٹ روڈ کے سامنے سرکاری بنگلے میں رہائش پزیر تھے۔ جہاں سے اسکول کا راستہ دو سے تین منٹ کا تھا۔ ہم پیدل ہی اسکول آتے جاتے مگر نانا جان کے ذاتی گھر میں شفٹ ہونے کے بعد ہمارے آنے جانے کا مسئلہ ہوا تو نانا جان خود ہی پک اینڈ ڈراپ کرنے لگے کیونکہ سثیکرٹریٹ قریب ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی جاب کے سلسلے میں اس طرف آنا ہوتا تھا۔ میں اپنی چھوٹی خالہ اور چھوٹے ماموں کے ساتھ چھٹی کے وقت اسکول کے سامنے کھڑے ہو کر نانا کا انتظار کرتی۔ میں اکثر اس خوبصورت عمارت کو دیکھتی اور سوچتی کہ اس میں کون لوگ بستے ہیں کیا وہ ہمارے جیسے ہی ہوں گے یا ہم سے الگ دکھنے والی کوئی مخلوق ہو گی۔ اکثر اوقات قومی جھنڈوں والی بڑی بڑی گاڑیاں اندر آتی جاتی نظر  آتیں۔ کھلے دروازے سے گھر کے اندر سے نظر آتے رنگ برنگے خوبصورت پھول اور بڑا سا لان اس خواہش کو مزید ہوا دیتا کہ اندر جا کر اسے ضرور دیکھنا چاہیے۔

شاید بچپن کی ایک معصوم سی خواہش تھی جو اللہ تعالی نے قبول کرلی کہ ایک دن آدھی چھٹی کے دوران جب ہم سہیلیاں چاٹ کھانے کے لیئے باہر آٸیں تو سامنے والے خوبصورت بلڈنگ کا گیٹ خلاف معمول کھلا ہوا پایا۔ بچے ہونے کی وجہ سے ہمیں صحیح غلط کی تمیز نہیں تھی اس لیئے قدم بےاختیار اس بلڈنگ کی جانب اٹھ گئے۔ ساتھ میں دو اور سہیلیاں بھی تھیں۔ سڑک پار کرکے دوسری جانب کھلے ہوئے آہنی گیٹ سے اندر داخل ہوئے۔   اندر کا سما ہی نرالا تھا۔ ایک انتہائی شاندار بڑی سی حویلی نما عمارت، اطراف میں مختلف رنگوں کے دلکش اور خوشبو دار پھول، چاروں جانب سرسبز وشاداب لان اور اس پر قطار در قطار سدا بہار کے اونچے درخت۔ میں تو اس عمارت کے حسین مناظر کے سحر میں کھو گئی اور مجھے  بچوں کی کہانیوں والے پریوں کے دیس کا گمان ہوا۔ رنگ برنگے پھولوں کی کشش نے ہمیں پھول توڑنے پر مجبور کیا۔ ابھی ہم سب نے ایک دو پھول ہی توڑے تھے کہ چوکیدار کی ہم پر نظر پڑی اور اس نے نہ صرف ہمیں دھتکار کر بلڈنگ سے باہر نکالا بلکہ ستم ظریفی یہ کہ اسکول کی پرنسپل صاحبہ سے ہماری شکایت کر دی۔ بس پھر کیا تھا۔ پرنسپل کی غیض وغضب سے بھرپور نگاہیں، اس پر برہم لہجہ اور مدمقابل ہمارا لرزتا ننھا سا وجود۔ ہم سب کو اس گناہ کبیرہ کی پاداش میں چھٹی تک باہر دھوپ میں کھڑا ہونا پڑا۔ ساتھ ہی ڈنڈوں سے درگت الگ بنی۔ وہ دن تو گذر گیا مگر اپنے پیچھے کچھ خوبصورت اور کچھ تلخ یادیں ضرور چھوڑ گیا۔ ہم اس عزت افزائی کا دکھ لیئے بڑے ہوئے تو یہ راز آشکار ہوا کہ یہ بلوچستان کا گورنر ہاٶس ہے۔ جہاں غریبوں کی رساٸی ناممکن ہی نہیں بلکہ عظیم جرم  ہے۔

 وائیٹ روڈ سے متصل میر جعفر خان جمالی روڈ پر واقعہ وسیع و عریض اراضی پر مشتمل اس عمارت کا ایک گیٹ اسی روڈ  پر گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول پوسٹل کالونی کی سڑک پر مخالف سمت میں کھلتا ہے جب کہ مین گیٹ زرغون روڈ پر کھلتا ہے۔ اس کے دونوں اطراف میں آہنی گیٹ سمیت آہنی رکاوٹیں اور خاردار تاریں لگی ہیں اور زرغون روڈ کا یہ علاقہ عوام الناس کے لیئے مکمل طور پر نوگو ایریا ہے۔ چاردیواری کے اوپر بھی چاروں جانب سے خاردار تار لگا کر اسے محفوظ کیا گیا ہے۔ جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کسی بھی مائی کے لال میں اتنی جرات نہیں کے اسے پار کرکے دوسری جانب جائے یا اندر جھانکے۔

کوئٹہ ماضی میں لٹل پیرس کے نام سے مشہور تھا۔ ویسے تو برطانوی دور حکومت میں پورا کوئٹہ صرف نام کا ہی لٹل پیرس نہیں تھا بلکہ اس میں اصل پیرس کی جھلک بھی ملتی تھی۔ مگر پھر آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ افغان مہاجرین کی ایک کثیر تعداد نے بھی یہاں کا رخ کیا۔ نتیجتاً آج کا لٹل پیرس اپنی پرانی خوبصورتی اور سیاحوں کے لیئے دلکشی کھو چکا ہے اور ہر جگہ کچرے کے ڈھیر اور ٹوٹی سڑکیں اس شہر کی نئی پہچان بن گئے ہیں۔ کوئٹہ کی گم گشتہ خوبصورتی اور اس کے باقی ماندہ آثار انگریزوں کے دور حکومت کی ہی مرہون منت ہیں۔ برطانوی سامراجی قبضے کے بعد 1877میں یہاں ترقی کی پیش رفت ہوئی اور  1888 میں لٹل پیرس کی خوبصورت عمارات میں ایک اضافہ گورنر ہاؤس کا قیام بھی تھا جو اپنی الگ برطانوی طرز تعمیر کی وجہ سے منفرد تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیئے قدیم دور کے نادر فن پارے،  انگریز وائسرائے کے مجسمے  سمیت مختلف تہذیبوں کے مجسمے اور مم جیسے چند نایاب پرندوں کے مجسمے بھی اس عمارت کی زینت ہیں۔ ان کے علاوہ  قائداعظم محمد علی جناح کے زیر استعمال 1911 میں بنائی گئی ایک یادگار کرسی بھی اس عمارات کی تاریخی حیثیت کو بڑھانے کا موجب ہے۔ گورنر ہاؤس کو حاضر سروس گورنرز کی رہائش گاہ کا درجہ حاصل ہے۔ یکم جولائی 1970 سے لے کر ستمبر 2021 تک مختلف گورنر جنرلز نے دوران گورنری یہاں سکونت اختیار کی ہے۔ جن میں پہلے گورنرلیفٹیننٹ جنرل ریاض حسین سے لے کر موجودہ گورنر سید ظہور آغا شامل ہیں۔

اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ بلوچستان میں گورنر ہاؤس سمیت چند پل، چند مضبوط آہنی سرنگیں، چند عظیم عمارات، اسپتال، سٹاف کالج، اور پورے کا پورا ریلوے کا ڈھانچہ انگریزوں کی ہی باقیات ہیں جنہیں 1935 کے زلزلے نے شدید نقصان پہنچایا مگر تب بھی شاید انگریزوں کی حکومت کی وجہ سے ان کی دوبارہ مرمت ممکن ہوسکی۔ بصورت دیگر قیام پاکستان سے لے کر اب تک یہاں کے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ مگر حالیہ الیکشن میں مستقبل کے سہانے خواب اور نئے پاکستان کی نوید لے کر عمران خان کی گورنمنٹ عطاءاللہ عیسی خیلوی، جواد، ابرار الحق، فواد اور ڈی جے کے ساتھ دھوم دھام سے ڈھول کی تاپ پر ناچتی ہوئی آئی تو عوام الناس نے جاگتے آنکھوں دکھائے خوابوں کی تعبیر کی خواہش لیئے ان کا بھرپور استقبال کیا۔ ان ناآسودہ خوابوں میں ایک یہ بھی تھا کہ وزیراعظم ہاؤس سمیت تمام گورنر ہاٶس عوام کے لیئے کھول لیئے جاٸیں گے اور عام آدمی کی ان تک رساٸی ممکن ہوگی۔  1096 کنال پر مشتمل وسیع اراضی والے وزیراعظم ہاؤس کو جدید یونیورسٹی میں تبدیل کیا جائے گا اور تمام گورنر ہاؤسسز کو میوزیم میں تبدیل کیا جائے گا۔ گورنر ہاؤس کوئٹہ کے اطراف میں پھیلے سرسبز و شادب لان کو خواتین کے لیئے پارک بنایا جائے گا۔ برسراقتدار آنے کے بعد وزیراعظم  عمران خان نے 7 اکتوبر 2018  پی ٹی آئی کے پارلیمانی گروپ اور صوبائی کابینہ  کے وفد کے سامنے اس کا عندیہ دیا۔ یہ سن کر ایک موہوم سی امید جاگی کہ شاید ایسا ممکن ہوجاٸے مگر خواب کہاں شرمندہ تعبیر ہوٸے ہیں اور شجر ممنوعہ کب کسی کی دسترس میں آیا ہے اور اگر آیا بھی ہے تو اس کی پاداش میں سخت ترین سزا بھی مقرر کی گٸی ہے۔ آج بھی یہ عمارت جامعہ، میوزیم یا فیملی پارک نہیں بنی بلکہ شجر ممنوعہ کی مانند  ہی موجود ہے اور خار دار باڑ والی عمارت کا آہنی دروازہ پار کرنے کی سزا اب بھی دھوپ میں کھڑے ہونا ہی قرار پایا ہے۔

ہر بار دھوکا کھانے والی عوام اس بار بھی نئے پاکستان کے خوبصورت نعروں کے سحر میں آگئی  بلکہ اکثر تو اب تک بھی خود کو اس سحر سے آزاد نہیں کر پائے ہیں اور گورنمنٹ کے ہر جائز و ناجائز عمل کو آسمانی صحیفے کا درجہ دے رہے ہیں۔ کچھ وقت پہلے خواب دیکھنے پر پابندی نہیں تھی مگر اب تو ان خوابوں کی یاد دہانی کرانے پر بھی پابندیاں لگادی گئی ہیں۔ ہم اندھے، گونگے اور بہرے لوگ ہیں۔ خدارا ہمیں گورنر ہاؤس کی سیر کا نہیں زندہ رہنے کا حق چاہیے۔ ہمیں بے فکری کے دن چاہیے۔ جب تنخواہ میں کچھ نہ کچھ بچت ممکن تھی۔ مگر اب تو  ٹیکسوں کے نام پر بے تحاشا لوٹ مار اور حد سے بڑھتی مہنگائی نے عوام کے خوابوں کا محل چکنا چور کردیا ہے۔