ماہواری اذیت ہے یا نجاست، مردوں سے سوال؟

مہنازاختر

دوستو! مارچ کا مہینہ خواتین کا مہینہ ہے۔ اس مہینے خاص شدت کے ساتھ خواتین کے حقوق پر بات کی جاتی ہے اور ان کے مسائل کا حل ڈھونڈا جاتا ہے۔ ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ ہمارے مردانہ سماج میں خواتین تعداد میں تو مردوں کے برابر ہیں مگر حقوق کے معاملے میں ہم ایک پسماندہ طبقہ ہیں۔ میں بھی کئی سال سے مارچ کے مہینے میں بالخصوص خواتین کے حقوق اور مسائل پر متبادل پر لکھ رہی ہوں۔ اس لیئے مارچ کی آمد سے کچھ قبل ہی میرا مضمون پیش خدمت ہے۔ 

پاکستانی معاشرے میں خواتین کے لیئے صحت کے حوالے سے آگہی کے پلیٹ فارمز نہایت قلیل ہیں۔ اب تو پھر بھی سوشل میڈیا کے ذریعے بہت ساری معلومات دستیاب ہیں لیکن اگر صرف دس سال ماضی میں چلے جائیں تو خواتین کو  اپنے نجی مسائل کے حل کے لیئے بہشتی زیور کی طرف دیکھنا پڑتا تھا۔ اب چاہے بہشتی زیور ہو یا شرعی مسائل کی دیگر کتب ۔ تمام کی تمام مردوں کے قلم سے لکھی گئی ہیں جہاں ان مسائل کو مردانہ عینک سے دیکھا گیا تھا۔ بلکہ بعض کتب میں تو خواتین کو عجیب حقارت آمیز طریقے سے مخاطب بھی کیا گیا ہے۔ بلکہ کچھ حلقوں میں تو کسی زمانے میں خواتین کے مسائل کی کتب سوفٹ پورن کا درجہ رکھتی ہیں۔ جو لوگ کبھی خواتین کے شرعی مسائل کی کتب کو سوفٹ پورن کے طور پر پڑھتے رہے ہیں۔ صرف انہیں ماہورای کی بات بے شرمی لگتی ہے حالانکہ دنیا بہت آگے نکل گئی ہے۔ 

پچھلے سال علمی ادارہ صحت یعنی WHO نے تین نکات پر مبنی قرارداد پاس کی۔ پہلا٫ ماہواری ایک طبی/صحت کا مسئلہ ہے۔ اسے صرف اور صرف ہائی جین ایشو نا سمجھا جائے۔ دوسرا، ماہواری کے دوران بنیادی طبی امداد، معلومات اورپراڈکٹ تک رسائی خواتین کے بنیادی انسانی حقوق کا حصہ ہیں۔ تیسرا، ریاستی سطح پر خواتین کے بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری اور اس دوران استعمال میں آنے والے پراڈکٹس مفت یا سستےداموں خواتین تک پہنچانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

حیض، پیریڈز یا ماہواری لکھنے اور بولنے میں جھجک ہمیشہ ہی مانع رہتی ہے۔ لیکن اپنے مسائل بتانے میں جس نے کی شرم اس کے پھوٹے کرم یعنی ہمیں ہمیشہ ہی یہ محسوس ہوا کہ مردوں نے ماہواری کو دیکھا تو ہے مگر محسوس نہیں کیا اس لیئے ماہواری میں انہیں خون نظر آتا ہے جو نجاست ہے۔  اگر مردوں کو ماہواری ہوتی تو وہ اسے نجاست نہیں اذیت کہتے کیونکہ ہر مہینہ یہ پانچ چھ دن جہاں خواتین جسمانی اذیت کا شکار رہتی ہیں وہیں ہارمونز کی کمی بیشی کی وجہ سے ذہنی مسائل کا بھی شکار رہتی ہیں۔

ہمارے مرد ماہواری کو اذیت کے بجائے نجاست کیوں سمجھتے ہیں؟ کہنا اچھا تو نہیں لگتا لیکن سچ یہی ہے کہ اس معاملے میں بھی ہمارے برصغیر کے مولویان، مفسرین اور مترجمین سب نے حیض کو نجاست کہا اور بتایا ہے۔ لیکن کیا قرآن مجید میں بھی ایسا ہی کچھ بتایا گیا ہے؟ 

یہ سمجھنے اور سمجھانے کے لیئے ہم نے زمانہ طالبعلمی 2017  میں اس موضوع پر جامعہ کراچی کے شعبہ قرآن و سنۃ کے لیئے ایک تحقیقی مقالہ لکھا تھا۔ اس مقالے کا مغز پیش خدمت ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالی نے حیض کی وضاحت کے لیئے لفظ “أَذًى”  کا استعمال کیا ہے اور جہاں جہاں یہ لفظ دوسرے بیانات میں استعمال ہوا ہے اذیت کے معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے۔ 

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى  (2:222) اس آیت کا اردو ترجمہ ہر مترجم نے کچھ یوں کیا ہے ” اور لوگ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ آپ کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے۔” حالانکہ قرآن مجید میں ہر جگہ أَذًى کا لفظ اذیت، رنج اور تکلیف کے لیئے استعمال ہوا ہے۔

اَذًى (2:196) “تکلیف”

اَذًى (2:262) ” تکلیف” 

 اَذًى (2:263) “تکلیف “

الْاَذٰى (2:264) ” برباد”

اَذًى (3:111) “تکلیف”

اَذًى (3:186) “ایذا”

اُوْذُوْا (3:195) “ستائے گئے”

فَاٰذُوْهُمَا (4:16) “ایذا”

اَذًى (4:102) “تکلیف”

اُوْذُوْا (6:34) “ایذا”

اُوْذِیْنَا (7:129) “ایذیتیں”

یُؤْذُوْنَ (9:61) “ایذا”

یُؤْذُوْنَ  (9:61) “رنج”

اٰذَیْتُمُوْنَا (14:13) “تکلیف”

اَذٰىهُمْ  (33:48) “تکلیف”

اُوْذِیَ (29:10) “ایذا”

یُّؤْذَنَ (33:53) “انتظار”

یُؤْذِی (33:53) “ایذا”

تُؤْذُوْا  (33:53) “تکلیف”

یُؤْذُوْنَ (33:56) “رنج”

یُؤْذُوْنَ (33:57) “ایذا”

یُؤْذُوْنَ (33:58) “ایذا”

اٰذَوْا (33:69) “ایذا”

تُؤْذُوْنَنِیْ (61:5)  “ایذا”

قرآن مجید میں کل 25 مقامات پر لفظ  “أَذًى” مختلف حالتوں میں تکلیف، رنج، اذیت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ جبکہ ناپاکی یا نجاست کے بیان کے لیئے  رِجْسٌ (6:145) اور نَجَسٌ ( 9:28)۔ مذکورہ دونوں آیات میں یہ الفاظ کسی بھی حوالے سے حیض کے حوالے سے نہیں آئے تو سمجھ سے بالاتر ہے کہ قرآن مجید کے اردو مترجمین نے خواتین سے متعلق اس آیت (2:222) کے اردو ترجمے میں علمی خیانت اور مردانہ تنگ نظری کا مظاہرہ کیوں کیا؟ 

یقینی طور پر اس کی وجہ کم علمی، چشم پوشی اور مردانہ انا ہی ہوسکتی۔ دیکھا گیا ہے کہ خواتین جب بھی اپنے حقوق، مسائل یا اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر بات کرتی ہیں تو انہیں بے حیا قرار دے دیا جاتا ہے، خاص طور پر مارچ کے مہینے میں۔ کیونکہ مارچ کے مہینے سے تنگ نظر مردوں کو خاص چڑ سی ہوگئی ہے۔

ہمیں بھی اس بات کا ادراک ہے لیکن اگر مارچ کا مہینہ ہمارا مہینہ ہے تو پھر ہمیں نڈر ہو کر اپنا زاویہ اور نقطہ نظر دنیا کے سامنے رکھنا چاہیے۔ اور سوال کرنا چاہیے! سوال اٹھانا چاہیے!