مجھے اس سے فقط ایک کتاب چاہیے تھی
عروسہ ایمان
اپنی ماں کی اکلوتی اولاد میں اس لئے تھی کیوں کہ میرے باپ نے اس فانی دنیا کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو اس دنیا کے ہی سہارے رخصت ہو چکا تھا۔
میری محبت میں شاید کوئی کمی تھی جو میں اپنے باپ کی وفات کا غم بھول کر تھوڑا آگے جانے کا سوچ رہی تھی اور شاید میری ماں کی محبت والہانہ اور گہری تھی جو وہ میرے باپ کو یاد کرنے کے علاوہ ہر خبر سے بے خبر تھی۔
مگر میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ درست کون تھا اور غلطی کس کی تھی؟ یا ہم دونوں اپنی اپنی محبتوں میں مگن تھے، بے بس تھے (میری ماں اپنے شوہر کے غم میں مبتلا تھی اور میں اپنی جدوجہد میں مصروف تھی) یا غلطی اس تیسرے شخص کی تھی جس سے میں نے فقط ایک کتاب ہی مانگا تھا۔
اس کتاب کی رقم محض اتنی تھی، جتنی میرے پچپن کے کھلونوں کی ہوا کرتی تھی۔ سانسوں کا فاصلہ تھا بس! میرے باپ کی سانسیں ختم ہونے سے پہلے میں ہر چیز اس کے پسینے سے خریدتی تھی اور اس کی سانسوں کی پرواز ہونے تک اپنی عزت کا دام لگا کر خریدنے کی پیشکش مجھے نہ ملی ہوتی اگر میری ماں میری طرح اپنے غم کو بھولنے کا ناٹک نہ کرتی تو۔
میرے پاس نہ ڈگری تھی نہ تجربہ تھا بس تھا تو ایک خواب، جس کو پورا کرنے کی لگن میں میں اڑی جا رہی تھی۔ میرا باپ دفن ضرور ہوا تھا مگر اس کا خواب زندہ تھا جو اس نے میرے لیے دیکھا تھا۔
مجھے ان دنوں وہ کتاب چاہیے تھی جو میرے خواب کو پورا کرنے کے لیے پہلی سیڑھی تھی۔ کسی نے اس شخص کا پتا بتایا کہ تمہاری کامیابی کی پہلی سیڑھی تمہیں وہ شخص پار کروائے گا۔ وہ شخص راہداری میں کہیں جا رہا تھا اور میں اس کے پیچھے پیچھے چلی اپنی منزل کو تلاش کرنے کے لئے دھندلے راستے کی اور۔
وہ مجھ سے عمر میں، قد میں اور تجربے میں بڑا تھا اس بات کا خیال رکھتے میں نے اس کو پیچھے سے پکار نہیں دی۔ اس کے احترام نے میرے گلے کا حلق مجھ سے چھین لیا۔ میرے باپ نے اپنی سانسوں سے علحیدگی اختیار کر کے میرے خواب کو میرے سپرد کردیا اور میں نے خاموشی کا بخار اپنے سر لے کر اپنے خواب کو رسوا کر دیا۔
اس کے پیچھے چلتے چلتے مین وہاں رکی جہاں پر کوئی اور نہیں تھا۔ وہ اپنے جیب سے کچھ نکال رہا تھا شاید اسی گاڑی کی چابی جس میں میری عزت کا جنازہ اٹھایا گیا تھا۔ وہ پتا نہیں کیوں اپنے گھر جا رہا تھا اور مجھے اس سے ایک کتاب لینا تھی کیوں کہ وہ محافظ کتب خانہ تھا۔
اس وقت دار الکتب کا وقت ختم ہوا چاہتا ہے۔ اپنی مطلوبہ کتاب کے مطالبے پر اس کا رد عمل تھوڑا عجیب تھا۔ مجھے اس وقت وہ کتاب ضروری چاہیے تھی اس لئے میں نے ایک اور التجا کی۔ میرے پاس اس دار الکتب کا کارڈ نہیں بنا ہوا تھا اور اس کی طویل عمل کے لئے وقت نہیں اور سب سے انکشاف والی بات دار الکتب کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ میرے پاس اب کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس لئے اس کی بات مان کر اس کے ساتھ اس کی گاڑی میں سوار ہوئی تا کہ اس کے کہنے کے مطابق میں اس کے گھر جا کر وہ کتاب وہاں سے لوں۔ کیوں کہ اس شخص کے مطابق وہ کتاب میرا وہاں انتظار کر رہا تھا۔
ڈگری اور تجربے سے تو میں رہی نہیں، عقل کی بھی میں اندھی ہو چکی تھی۔ میرے پاس جو تھا وہ بس خوبصورت آنکھیں تھی۔ میرے نقش و نین نے بھی مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ باقی کثرت میری جوانی نے اس کی نیت پر حملہ کر کے پوری کی اور یوں میری چیخ و پکار نے اس ویران راستے پر گاڑی سے لہو لہو ہو گئی اور میرا کتاب اس کے گھر میں ہی انتظار کرتا رہ گیا۔