مجھے انصاف چاہیئے! “ریاستی قانون اور عدالتی نظام کے منہ پر طمانچہ”
عابد حسین
تین دن پہلے ایک دوست نے ایک ویڈیو واٹس ایپ کی۔ اب تو یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہے۔ ویڈیو ڈسٹرکٹ کورٹ نوشہرہ (خیبر پجتونخواہ) کی ہے۔ اس میں ایک سفید داڑھی والے بزرگ روتے اور چیختے ہوئے انصاف مانگ رہیں ہیں۔ بزرگ کا کہنا ہے کہ اس کے بھائی کو دن دیہاڑے سر میں گولی مارکر قتل کردیا گیا ہے۔ مقتول کے بھائی نے روتے ہوئے کہا کہ قاتل بااثر ہے اس لیئے نہ تو گواہی دینے کو کوئی تیار ہے اور نہ ہی قاتل کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں لائی جارہی ہے۔ بزرگ نے مقتول کے بچوں یعنی اپنے دو بھتیجوں اور ایک چھوٹی بھتیجی کو گود میں اٹھایا ہوا ہے اور غم سے نڈھال روتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ “مجھے انصاف چاہیئے!” اس کی آواز میں کرب تھا، درد تھا اور بے بسی تھی۔ احاطہ عدالت میں موجود لوگ بھی فرط جذبات سے رونے لگے۔
باریش بزرگ نے مقتول بھائی کے بچوں کو گود میں اٹھاکر سیمنٹ کی اس سلیپ پر کھڑا ہوگیا جس کے اوپر پاکستان کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ میں ایک ریٹائرڈ پولیس سروس مین ہوں۔ میں اگر چاہتا تو میں بھی بدلے میں مخالفین پر گولی چلاسکتا تھا لیکن قانون کی پاسداری، اپنے خاندان کی پوزیشن اور عدالت سے انصاف ملنے کی امید پر کیس دائر کیا پر ابھی تک نہ تو حکومت کی طرف سے یا پولیس کی طرف سے کوئی اقدام عمل میں لایا گیا اور نہ ہی عدالت نے قاتلوں کو پکڑنے کا کوئی حکم جاری کیا۔
آخر میں مقتول کا بزرگ باریش بھائی دھاڑیں مارمار کر اور چیخ چیخ کر باربار آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ نہ علاقے کے لوگ گواہی دینے کو تیار ہیں، نہ پولیس کوئی کاروائی کررہی ہے اور نہ ہی عدالت کی طرف سے کوئی حکم نامہ جاری ہوا ہے۔ میں اللہ سے انصاف کا طلبگار ہوں۔ اللہ مجھے ضرور انصاف دے گا۔ روز آخرت میں مجھے انصاف ضرور ملے گا۔ ادھر نہ سہی لیکن انصاف کرنے والا مجھے ضرور انصاف دے گا۔ معاشرے، حکام اور عدالت سے انصاف مانگنے والا بزرگ جب دھاڑیں مار کر یہ سب کہہ رہا تھا تو عدالت کے احاطے میں کھڑے سارے لوگ خاموش تماشائی بن کے کھڑے تھے اور اوپر پاکستان کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس مملکت خداداد میں۔ ہزاروں لوگوں کے ساتھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں۔ جہاں مظلوم کی کوئی داد رسی نہیں ہوئی اور با اثر ملزمان یا مجرمان باعزت طور پر یا تو رہا ہوتے ہیں یا انکے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی، یا زیادہ تر با اثرافراد، بڑے لوگوں کا ہاتھ سر پر ہونے کی وجہ سے ان کو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہوتا۔ طاقتور کے لیئے الگ قانون نافذالعمل ہونے کی وجہ سے وہ باعزت بری ہوجاتے ہیں۔ جبکہ معاشرے کا عام فرد یا ایک غریب شہری کو مرنے کے بعد بھی مجرم ٹہرا دیا جاتا ہے۔ مملکت خداد کے قانون وانصاف کے چہرے پر ایسے سینکڑوں بدنما داغ موجود ہیں۔ عدالتی نظام پر ایسے بے شمار سوالات موجود ہیں اور انصاف کے رکھوالوں اور قانون نافذ کروانے والوں کی اہلیت و کردار پر ہزاروں بار انگلیاں اٹھائی جاچکی ہیں اور اب بھی اٹھ رہی ہیں۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ ایک تو آئین و قانون میں ابھی بھی کرنے کو بہت کام باقی ہے جبکہ یہاں پر انصاف اور منصفین کی بھی قیمت لگانے کی روایت ہے۔ انصاف سر بازار بکتا ہے، منصفین بکتے ہیں، قاتلوں، چوراچکوں، اسمگلروں اور رشوت خوروں سے جڑے افراد اور انکے جڑے مفادات کی وجہ سے نظام انصاف کوڑیوں کے مول بکتا ہے۔ حکمران طبقے میں موجود کالی بھیڑوں کی وجہ سے بھی بعض اہم قوانین بن نہیں پاتے۔ عدالتیں ثبوت مانگتی ہیں لیکن ثبوت مٹانے کے لیئے بھی لوگ موجود ہوتے ہیں جو ہر وقت بکنے کو تیار ہیں۔
بکنے والوں کے قبیل کا تعلق ہر شعبہ سے ہے۔ ان میں حکمران، سیاستدان، بیوروکریٹس سے لیکر عام آدمی، پولیس اور جج تک ہیں جو بک جاتے ہیں۔ یہاں پر مسئلہ یہ ہے کہ حکمران طبقہ بھی ایسے قوانین بنانے اور نافذ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا جس سے انصاف کا عمل پائیدار، بروقت اور تیز ہو۔ اسی کمی کی وجہ سے ایک طرف اگر بااثر افراد اپنے من مانے فیصلے صادر کروانے سے نہیں کتراتے تو دوسری جانب عدالتی نظام بھی سست روی کا شکار رہتا ہے۔ مثلاً جب کہیں پر چوری ہوتی ہے یا قتل ہوتا ہے تو کوئی گواہی دینے کو اس لیئے بھی تیار نہیں ہوتا کیونکہ کہ ریاست، حکومت اور متعلقہ اداروں کی جانب سے انہیں تحفظ فراہم کرنے کی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی جاتی ہے۔ بلکہ اکثر گواہ عدالت جانے سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں اگر چور یا قاتل کو تربیت یافتہ کتے کے ذریعے پکڑا جاتا ہے تو اس کو عدالت میں بھی مانا جاتا ہے اور مجرم کو سزا دی جاتی ہے- جبکہ یہاں پر قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے ایسا کوئی ثبوت عدالت میں قابل قبول ہی نہیں ہے۔ اگر کوئی قتل کرتا ہے اور پولیس اسٹیشن میں اپنے جرم کو قبول کرلیتا ہے لیکن جب اس کو عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو وہاں پر بھی تھانے میں دیا گیا بیان یا پولیس کو دیا گیا بیان قانون کی رو سے عدالت میں قابل قبول نہیں ہوتا۔
سب سے بڑی ذمہ داری مقننہ کی ہے کہ ایسے قوانین لائے اور آئین کا حصہ بنائے کہ جس سے نظامِ انصاف اور عدالتی نظام میں تیزی بھی آئے اور ساتھ ساتھ ان سقم کو بھی دور کیا جاۓ کہ جن کی وجہ سے تھانے میں تو ملزم اپنا جرم قبول کرلیتا ہے لیکن عدالت میں پھر سے چھوٹ جاتا ہے۔ ایسا نظام لانے کی کوشش کی جائے کہ جس کی رو سے معاشرے کا ایک عام فرد انصاف پر مبنی گواہی دینے سے نہ کترائے اور اس کو یقین ہو کہ اسے تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
ایسا نظام متعارف کروایا جاۓ کہ مظلوم کی داد رسی ہو، جہاں پر گواہی نہ دینے کی وجہ سے ظالم بری نہ ہو۔ ریاست، مقننہ اور عدلیہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ انصاف کے نظام کی خامیاں دور کرنے کی سعی کریں تا کہ آئندہ کوئی باریش بزرگ احاطہ عدالت میں کھڑے ہوکر بے بسی کی تصویر نہ بنے۔ کسی مقتول کا بیٹا یا بیٹی پاکستان کے جھنڈے تلے کھڑے ہوکر آسمان کی طرف منہ کرکے فریاد نہ کرے۔ ایسا نظام لانا ہوگا کہ سستا اور پائیدار انصاف ملے اور مظلوموں کی حقیقی داد رسی ہو ناکہ ایک بھائی عدالت میں کھڑے ہوکر، دھاڑیں مارمار کر، نا امید ہوکر قیامت کے دن کا انتظار کرے۔