مجھے کیوں نکالا؟ پارٹ 2
وقاص احمد
یوں تو اس مضمون کے بہت سے عنوانات ہوسکتے تھے جیسے کہ دکھیارا دل، ناکام کپتان، آخری بال اور صفر پر کلین بولڈ وغیرہ وغیرہ مگر مشہور زمانہ جملہ ”مجھے کیوں نکالا“ سے میرے انصافی دوستوں کو اس قدر الفت ہے کہ جب میں نے اس جملے کو کاں صیب پر گزری واردات کے تناظر میں استعمال کیا تو اہلیان یوتھ کو ایسے ایسے غش پڑنے لگے اور ایسے ایسے تڑپنے لگے جیسے مچھلی پانی سے باہر ہو۔ پھر جب میرے اندر کے ننھے منے سے شیطان نے نوٹس کیا کہ اس جملے کے استعمال سے اہلیان یوتھ پر گزری جسمانی و قلبی واردات کو مذید مہمیز ملتی ہے تو میں نے فیصلہ کر لیا کہ اپنے انصافی دوستوں کی خوشی کی خاطر اسی عنوان کو استعمال کروں گا۔
ملکہ جذبات، عصر حاضر کی شمیم آرا محترم جناب کپتانِ کاں صیب نے روتی ہوئی شکل، رکتے ہوئے آنسوؤں اور دکھیارے دل کے ساتھ کہا کہ ”مجھے بتائیں میرا قصور کیا تھا جو آپ نے 12 بجے عدالتیں کھولیں“ تو یقین مانیں میرا کلیجہ حلق کو آگیا۔ اللہ رے اللہ! کائنات کے عظیم ترین کپتان کے ساتھ ایسا ناروا سلوک؟ وہ جو 12000 کروڑ پاؤنڈ کی جائیداد کو فلائنگ کک رسید کرکے ان دو دو روپے کے پاکستانیوں پر احسان جتانے ملک واپس آیا اسے کم از کم 15-20 سال تو پاکستان برباد کرنے کا موقع ملنا چاہیے تھے۔ (دو روپے کے پاکستانیوں کے محاورے پر چیں بہ چیں ہونے والے محبان وطن سے التماس ہے کہ بنگلہ دیشی ٹکا ہمارے کاں صیب کی عظیم قیادت کی وجہ سے روپے سے مہنگا ہوگیا ہے اس لیے ہماری اصل اوقات اب روپے میں ہے) خیر! یہ دکھ یہ رنج و غم بھلانے کے لیئے میں نے سوچا کہ اپنے کسی درد مند دوست کے پاس جاکر غم ہلکا کر لیتا ہوں۔ اس کے گھر پہنچا تو وہ مزے سے چکن بریانی کھا رہا تھا جو اس کی اماں نے بنائی تھی (وضاحت اس لیئے ضروری ہے کہ ہمارے انصافی دوست کسی کو بریانی کھاتے دیکھیں تو تصور کر لیتے ہیں کہ یہ اسے ن لیگ کے جلسے سے ملی ہوگی)۔ اس نے میرے سامنے پلیٹ رکھی، میں نے شکریہ کے ساتھ لوٹا دی اور انتہائی دکھی دل اور بہتے آنسوؤں کے ساتھ کہا یار اس غم کے موقع پر کیسے بریانی کھا لوں مجھے سے ایک چمچ بھی کھایا نا جائے گا۔ تم آنٹی کو کہو مجھے قیمے والا پراٹھا ہری چٹنی کے ساتھ بنا دیں (دوبارہ وضاحت کرتا چلوں یہاں قیمے والے پراٹھے کا ذکر ہے، نان کا نہیں)۔
خیر میرا پراٹھا آگیا، پہلا نوالا منہ میں رکھا ہی تھا کہ آنسوؤں کی بارش شروع ہوگئی، ہچکیاں بندھ گئی، دل یہ سوچ کر مٹھی میں آگیا کہ ہم یہاں پراٹھے اور بریانیاں کھا رہے ہیں ادھر میرے کپتان کے روٹی پانی دوا دارو کا خرچہ اٹھانے والی اے ٹی ایمز اس ”غیور اور باحمیت“ نان بھکاری شخص کا ساتھ چھوڑ چکیں۔ آج تو میرے کپتان کو پھر نوکروں کے گھر سے بچا ہوا سالن کھانا پڑے گا۔ میں غم سے پھٹ پڑا۔ پراٹھے والی پلیٹ پرے دھکیل کر کہا کہ نہیں کھا سکتا میں یہ قیمے والا پراٹھا جب تک ساتھ میں لسی ناں ہو۔ دوست میرے غم سے واقف تھا۔ اس نے گھر میں لسی کا بولا اور مجھے دلاسہ دیتے ہوئے بولا ”تھوڑا رو لو، دل ہلکا ہوجائے گا۔ غم کو اندر روکنے سے دماغ پر اثر ہوجاتا ہے۔“ میں نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا، کیا ضرورت تھی میرے کپتان کو اتنا ذلیل کرکے نکالنے کی۔ اتنا ہینڈسم تھا، کرسی پر بیٹھا تسبیح پھیرتا کتنا پیارا لگتا تھا۔ مجھے بس عمران خاں واپس چاہیے۔ پھر اچانک میری آواز اونچی ہوگئی اور میں نے چیختے ہوئے کہا اب ڈیزل ہمارا صدر ہوگا، کتنی شرم آئے گی مجھے۔
میرے دوست نے مجھے دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ خیر شرم تو تم کو بالکل نہیں آئے گی مگر یہ تو بتاؤ ایک سیاسی لڑائی میں اتنا جذباتی ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ میں پھر ہیجانی انداز میں چیخنے لگا۔ ”کیا ضرورت تھی رات کو 12 بجے عدالت لگا کر میرے کپتان کو نکالنے کی۔ قصور کیا تھا اسکا؟“ میرے دوست نے پھر مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ دیکھو غم کی وجہ سے تمہارے دماغ پر اثر ہوگیا ہے۔ اول تو تمہارے کپتان کو سپریم کورٹ نے نکالا نہیں بلکہ بحال کیا تھا۔ نکالنے کی سعادت تو اپوزیشن کے حصے میں آئی تھی۔ میں طنزیہ انداز میں بولا جب کپتان نے خود استعفیٰ دے دیا تھا تو پھر بیوقوفوں کی طرح اسے بحال کر دوبارہ نکالنے کی کیا تک تھی۔ میرے دوست نے جواباً پوچھا کہ باکسنگ دیکھتے ہو اور محمد علی کا پتہ ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ دوست بولا باکسنگ کی تاریخ کی سب سے لیجنڈری فائٹ محمد علی اور سونی لسٹن کی تھی جب راؤنڈ شروع ہونے 30 سیکنڈ کے اندر محمد علی نے سونی لسٹن کو ایسے مکے رسید کیے کہ لسٹن 30 سیکنڈ میں ڈھیر ہوگیا اور اس کے زخم جوڑنے کے لیے 8 ٹانکے لگے تھے۔ پوری دنیا نے اس لڑائی کا انتہائی شدت سے انتظار کیا تھا لیکن محاوہ بن گیا کہ اس دن جس نے سگریٹ سلگائی وہ میچ نہیں دیکھ سکا۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ یہ سب تم مجھے کیوں سنا رہے ہو۔ دوست بولا, ذرا تصور کرو کہ اگر اس دن سونی لسٹن رنگ میں اترتا ہی نہیں، یا پھر مقابلہ شروع ہونے سے پہلے دوڑ جاتا تو کیا یہ لیجنڈری فائٹ ہو پاتی؟
میں نے کہا نہیں! دوست بولا آپ کے کپتان نے 2018 سے لےکر مارچ 2022 تک اپوزیشن کو مقابلے کے اتنے چیلنج دے دیے تھے کہ پوری قوم اب اس لیجنڈری فائٹ کا انتظار کر رہی تھی۔ مگر ہوا یوں کہ جیسے ہی اپوزیشن کا باکسر رنگ میں اترا کاں صیب رنگ سے دوڑ گئے اور وہ عوام منہ دیکھتی رہ گئی جن کے سامنے کاں صیب نے آخری گیند تک لڑنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس لیئے عوام کے پرزور اصرار پر ریفری کاں صیب کو گھسیٹتے ہوئے واپس رنگ میں لےکر آئے اور حسب توقع کاں صیب پہلے مکے پر ہی عین غین ناک آؤٹ ہوکر ڈھیر ہوگئے۔ لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ کاں صیب اب یہ کبھی نہیں کہہ سکیں گے کہ مقابلہ ہوتا تو میں نے یہ کردینا تھا وہ کردینا تھا۔ جو وہ کر سکتے تھے سب نے دیکھ لیا۔
میں چونکہ کافی ڈھیٹ ہڈی تھا اس لیے اپنے کپتان کی اتنی عزت افزائی کے بعد بھی خاموش نہیں ہوا اور بولا اگر ریفری کو ساتھ ملا کر ہی کھیلنا تھا تو بہتر تھا نا کھیلتے، دوست بولا ریفری نے کس کا ساتھ دیا بھئی؟ میں نے کہا کہ رات 12 بجے عدالتیں کیوں کھولی گئیں جب کاں صیب کا کوئی قصور بھی نہیں تھا؟ دوست نے آگے سے الٹا سوال پوچھ لیا کہ تم بتاؤ عدالتیں کیوں کھولی گئیں؟ میں نے کہا مجھے تو نہیں پتہ۔ دوست بولا پتہ تو مجھے بھی نہیں لیکن کاں صیب کو کیسے پتہ کہ عدالتیں ان کے لیے کھولی گئیں؟ میں نے حیرت سے پوچھا کیا مطلب؟ دوست بولا یار دیکھو ہوسکتا ہے جج صاحب کی عینک چیمبر میں رہ گئی ہو وہ اپنی عینک لینے آئے ہوں۔ میں نے ہنس کر کہا اور ہائیکورٹ؟ دوست بولا ہوسکتا ہے جج صاحب کے گھر ڈھیر سارے مہمان آئے ہوں اور وہ سکون سے سونے کے لیے اپنے چیمبر آ گئے ہوں۔ میں ہنس ہنس کر دہرا ہوگیا اور کہا چولیں نا مار تمہیں سب پتہ ہے کہ عدالتیں کیوں کھولی گئیں۔
دوست نے مجھے آنکھ مار کر کہا کہ یہی تو بات ہے میری جان، رات بارہ بجے آپ اپنے گھر کا دروازہ کھول رہے ہو اور آپ کے پاس سے پولیس موبائل گزرے تو آپ کو ان سے کوئی غرض کوئی ڈر نہیں ہوتا۔ لیکن اگر رات آپ ڈکیتی کی نیت سے کسی گھر کا لاک کھول رہے ہوں تو کسی کے موبائل کی گھنٹی بھی آپ کو خوفزدہ کردیتی ہے کیونکہ دل میں چور ہوتا ہے۔ تو میری جان! اگر کاں صیب کے دل میں چور نہیں تھا تو عدالتیں کھلتی یا بند رہتیں انہیں اس سے کوئی غرض کوئی شکایت نا ہوتی اور وہ اپنی مرضی سے سب کچھ کر جاتے لیکن چونکہ کاں صیب کے دل میں چور تھا اسی لیے یہ جانے بغیر بھی کہ عدالت کیوں کھلی ہے وہ بندے کے پتر کی طرح رنگ میں اتر آئے جہاں اپوزیشن کا باکسر ان کے دانت توڑنے کو بیتاب بیٹھا تھا۔ سو دوبارہ آگر آپ کے کاں صیب اپنے دکھی دل کا دکھڑا روئیں کہ رات بارہ بجے عدالت کیوں کھولی گئی تو ان سے لازمی پوچھنا کہ آپ کو کس نے بتایا کہ عدالتیں آپ کے لیئے کھولی گئی ہیں۔ ہوسکتا ہے عدالتی عملہ ویسے ہی لائٹیں بلب وغیرہ چیک کر رہا ہو اور کاں صیب اپنے دل کے چور کی وجہ سے مفت میں مارے گئے۔
(ہاہاہاہا)