معاشرہ، سیکس اور ریپسٹ

 تہذیب خان

گزشتہ دنوں ہوۓ کچھ زیادتی کے سانحوں سے عوام سوشل میڈیا میں ایک شدید غصے کی لہر چل رہی ہے اور ان کا یہ ردعمل کیوں کر نہ ہو؟  پاکستانیوں کا ایسا کوئی دن نہیں جاتا جب وہ ریاست کو گالی نہیں دیتے۔ آپ کا ٹیکس، آپ کی معیاری تعلیم، اچھی صحت، اچھی سفری سہولیات، بنیادی سہولیات کےلیئے ہوتا ہے، لیکن   ہماری ریاست صرف اپنا پیٹ بھر رہی ہے۔ طالب علم خود کشیاں کررہے ہیں، ڈگری ہولڈرز ملازمت نہ ملنے پرریڑیاں لگا رہے ہیں۔ ہم اپنے ہی آزاد ملک میں ٹیکس کی صورت میں تاوان ادا کررہے ہیں۔

میرا تعلق خیبر پختونخواہ کے ضلع ہری کے گاؤں گھیبہ سے ہے۔ اس علاقے میں زیادتی کے کیس بہت بڑی تعداد میں ہوتے ہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔ ریپ کرنے والے زیادہ تر بچوں کو اپنی ہوس کے لیئے استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ بچے آسانی سے لالچ میں آجاتے ہیں یا ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ پھر جب ریپ کرنے والے کو اس کی لت لگ جاتی ہے تو وہ بندوق کی نوک پر بھی زیادتی کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ جب انہیں پکڑے جانے کا ڈر یا مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے تو یہ اپنی جان بچانے کے لیئے جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ لوگ ایکسپوز نہ ہونے تک عام شہری ہیں کسی کے بیٹے، کسی بہن کے بھائی ہیں اور کسی کے دوست بھی ہیں۔ یہ بات میرے لیئے دکھ اور افسوس کی ہے کہ کئی ایسے لوگوں کو میں بھی جانتا ہوں اور کچھ میرے دوست بھی ہیں جو یہ سب کام کرتے ہیں یا کرتے رہے ہیں لیکن پکڑے نہ جانے کی وجہ سے انکی درندگی بڑھتی جارہی ہے۔

ویسے تو سیکس ہر بالغ کا پسندیدہ موضوع ہے لیکن جب اس حوالے سے مکالمت کی جائے یا سیکس سے جڑے مسائل حل کرنے کے لیئے یا جنسی آزادی کی کوئی بات کرے تو سب کا ایمان جاگ جاتا ہے۔ سیکس ہمارے معاشرے کا ایسا مسئلہ ہے جس پر کوئی بات کرنا پسند ہی نہیں کرتا، نہ والدین اس حوالے سے سمجھاتے ہیں اور نہ اسکولوں میں اس پہ بات ہوتی ہے تو پھر آپ کا بچہ یا بچی محفوظ نہیں ہے، اس میں کچھ غلطی ہماری اپنی بھی ہے۔

سیکس آج کا نہیں صدیوں کا مسئلہ ہے۔ سیکس کی خواہش ایک فطری عمل ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ریپسٹ کی ریپ کرنے وجہ جنسی تسکین کا حصول ہے تو کیوں نہ ہم اس مسئلے کو حل کریں۔ کئی اسلامی ممالک میں سیکس کی آزادی ہے۔ جسم فروشی کے اڈے حکومت کی مرضی سے چل رہے ہیں۔ کیوں نا ہم اس مسئلے کو سرے سے ٹھیک کرنے کی کوشش کریں۔ حکومت کو سیکس ڈول کو پروموٹ کرنا چاہیے۔ پاکستان میں اب بھی سیکس ڈول کی فروخت ہوتی ہے لیکن بہت مہنگی ہونے کی وجہ سے عام آدمی کے دسترس میں نہیں ہے۔ یہاں اپنے کارخانے لگائیں اور سیکس ڈول کو عام کریں۔ اس کے استعمال سے کوئی تو زیادتی سے بچے گا۔ جسم فروشی اب بھی چھپ کے ہوتی ہے اس کو بھی لیگل کریں اور ٹیکس لیں۔ جتنا جلدی ہو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیئے قوانین بنائے جائیں۔ ریپ کی سزا ایسی ہو کہ لوگ عبرت حاصل کریں۔ آخر میں بس یہی کہوں گا، سانحہ موٹروے کی خبر اس انداز سے مت پھیلائیں کہ جس سے خواتین میں خوف پیدا ہوکیونکہ جرم اور حادثات مردوں کے ساتھ بھی ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے بچے بچیوں کو بہادر بنانا ہے، خوفزدہ اور سہما ہوا نہیں۔