معاشرہ، عورت اور مقام

سعدیہ نذیر

کیا آپ نے اپنے کورس میں کوئی ایسا مضمون یاد کیا ہے جو اسلام میں مرد کے مقام پر بات کرتا ہو؟

 ذرا اپنے دماغ پر زور دیں تو  ہمیشہ آپ کے کانوں میں پڑنے والی باز گشت آپ کو یہی موضوع دہرانے پر مجبور کرے گی کہ اسلام میں عورت کا مقام کیا ہے؟ کیا یہ کسی ایسے محرک کی طرف اشارہ ہے جو کہ ایک طرف عورت کو کٹہرے میں لاکر کھڑا کرتا ہے جب کہ دوسری طرف اسے مذہب اورمعاشرے کے اس پر کیے جانے والےاحسانات کےبوجھ تلے اتنا دبا دیتا ہے کہ وہ کبھی سر اٹھا کر جی نہ سکے۔

میرا بلاگنگ کی دنیا میں قدم رکھنے کا مقصد سیکولر اور مذہبی دنیا کی بڑھتی ہوئی تفریق کو کم کرنا اور موجودہ معاشرے میں مذہب کی ضرورت پر بات کرنا ہے۔  زندگی کے مختلف  معاشرتی، معاشی، اقتصادی، نفسیاتی اور جنسی پہلووں پر لکھے جانے والے میرے تمام بلاگز اس مسئلے کے تناظر میں بات کریں گے۔ اس تعارفی بلاگ کا مقصد عورت اور مرد کے معاشرتی اور مذہبی مقام کو لے کر چند بنیادی پہلووں پر نظر ڈالنا ہے۔

عورت اور مرد کا تعلق ایک یک طرفہ تعلق نہیں ہو سکتا۔ یہ باہمی تعلق ہے۔ بات چاہے مذہبی اقدار کی ہو یا معاشرتی اقدار کی۔ مسئلہ معاشی ہو یا جنسی تعلق کا۔ بات دنیا کی ہو یا آخرت کی۔ اس بات سے آپ انکار نہیں کر سکیں گے کہ یہ معاشرہ عورت کے لیے قدآوار اخلاقیات اور معیار کا ایسا بت کھڑا کیے ہوۓ ہے،جس کے قد کے برابر آنے کے لیے عورت اپنی ساری زندگی ایڑھیاں رگڑتے گزار دیتی ہے۔ لیکن نہ تو وہ ایسی بن پاتی ہے اور نہ ہی کبھی مرد کے اس معاشرے میں سرخروئی حاصل کر سکتی ہے وہ کج فہم ہی رہ جاتی ہے اس کی ہر خامی کے بدلے اسے عورت ہونے کا طعنہ سننا پڑتا ہے۔

جب اسلام نے عورت اور مرد کو مختلف حقوق و فرائض کی بنا پرکلی طور پر ایک دوسرے کے برابر قرار دیا ہے تو مرد اور عورت دونوں پر شرم و حیا کی ایک جیسی قید و بند ہے۔ اگر اسلام مساوی سلوک کا درس دیتا ہے تو معاشرتی رویہ عورت اور مرد کے کردار میں تمیز کن بنیادوں پر کرتا ہے؟ نیز یہ کہ غلطی کی گنجائش انسان کی فطرت اور روش ہے۔ اس معاشرے میں مرد کو شہوت رکھنے کا حق تو حاصل ہے۔ یہ بات بار بار جتلائی اور سمجھائی جاتی ہے کہ مرد جنسی طور پر فعال ہے جب کہ عورت صرف اس جنسی تعلق کے اثر کو قبول کرتی ہے؟

 نسی تسکین مرد کی قدرتی ہیجانی کیفیت ہے جس کے لیے وہ پولی گیمی کا سہارا بھی لیتا ہے بلکہ میریٹل کوڈ آف کنڈکٹ کو توڑتا بھی ہے۔ ’ناجائز‘ تعلق بھی قائم کر لے تو یہ معاشرہ اسے قبول کر لیتا ہے۔ مرد کو لے کر معاشرے کا ایسا رویہ یہ بتاتا ہے کہ مذہبی تعلیمات اور ان کی معاشرتی تشریح میں قدرے تفریق پائی جاتی ہے۔ کیوں کہ مذہب تو مرد کو کسی ایسے تعلق بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔

 دوسری طرف عورت کاایک ازدوجی بندھن میں ہوتے ہوۓبھی اپنی  جائز جنسی خواہش کا اظہار کرنا بے شرمی و بے حیائی تصور کیا جاتا ہے۔ ادھر ہم عورت کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ اسلام نے تمہیں ’اعلیٰ مقام‘ دیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے اسلام نے عورت کو جو ’اعلیٰ مقام‘ دیا وہ تو دیا، لیکن کیا معاشرے نے بھی اسے کوئی مقام دیا؟

صرف نظریات کی میٹھی گولیوں سے معاشرے کے کڑوے حقائق کے نقوش نہیں مٹائے جا سکتے۔ نتیجتاً جب مرد اور عورت کے مابین تعلق کی اس تفریق کا سبب معاشرہ بنا ہے تو اس کا حل بھی معاشرے کی ان جڑوں کو کاٹ کر نکالا جائے گا۔کسی فرضی ریاستِ مدینہ کے تصور سے یہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اس کے لیے پہلے ان مسائل کو پیدا کرنے والی وجوہات پر بات کرنا ہوگی۔

سب سے بڑی بات یہ کہ انہیں تسلیم کرنا ہوگا۔ مفروضے کے عملی اظہار کے بغیر اصول و ضوابط کی تشریحات دورِ حاضرمیں اپنا تاثر نہ چھوڑ سکیں گی اگر ان کا کوئی معاشرتی عملی نمونہ ہمارے سامنے نہ رکھا گیا۔

مرد اور عورت کے مقام کو اگر تمام مذہبی اور معاشرتی پابندیوں سے آزاد تصور کر لیا جائے تو یہ معاشرہ مرد کے گناہ کو تو معاف کر دیتا ہے لیکن عورت کے گناہ کو معاف رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ جب بات شخصی اور انفرادی آزادی کی ہو رہی ہے تو عورت اور مرد دونوں کا کردار ان کا ذاتی فعل ہے۔ ان کے ذاتی اعمال اور کرادر کی بنا پر انہیں جہنم رسید کرنے کا حکم اور اختیار اگر کسی کو ہے تو وہ صرف خدا کی ذات ہے۔