مملکت اسگارڈیہ اور امریکی صدر کی جانب سے خلائی فورس کے قیام کااعلان

مہناز اختر

گزشتہ دنوں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلائی فورس کی تشکیل کے اعلان کو ہمارے یہاں انتہائی مضحکہ خیز سمجھا گیا حالانکہ یہ اعلان اپنے سیاق وسباق میں انتہائی سنجیدہ نوعیت کا ہے۔ صدر ٹرمپ نے محکمہ دفاع اور پینٹاگون کو فوری طور پر امریکی آرمڈ فورسز کی چھٹی شاخ “اسپیس فورس” کے قیام پر کام شروع کرنے کو کہا اور مستقبل میں چاند اور مریخ پر آبادکاری کا عزم بھی ظاہر کیا- انہوں نے کہا کہ صرف یہ کافی نہیں ہے کہ خلاء میں امریکی موجودگی ہو بلکہ ہم پرلازم ہے کہ خلا میں امریکی غلبہ ہو۔

آج کل دنیا بھر کے سائنسی جرائد میں چاند اور مریخ پر آبادکاری کے حوالے سے بہت کچھ شائع ہوتا رہتا ہے اور کئی ممالک نے مستقبل میں مریخ پر آبادکاری کے منصوبوں کا اعلان بھی کیا ہے. اسی سلسلے کی ایک کڑی نیدرلینڈ کی نجی کمپنی کا MARS One کا منصوبہ ہے , جو 2026 تک انسانوں کا ایک وفد مریخ پر بھیجنے کی تیاری کررہا ہے لیکن خلاء میں انسانی آبادکاری کے ایک اور اہم ترین منصوبے اسگارڈیہ کے بارے میں بہت کم بات کی جاتی ہے۔ امریکی صدر کے خلائی فورس کے قیام کے اعلان کو اگر اسگارڈیہ کے منصوبے کے تناظر میں دیکھا جائے تو آپ مستقبل کے حوالے سے سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے. کیونکہ آنے والا وقت ٹرانس ہیومنز اور اسپیس ٹیکنالوجی کا ہے۔

اسگارڈیہ Space Kingdom of Asgardia یا “مملکت اسجاردیہ الفضائیہ” کے تصور کے خالق اور اس منصوبے کے روح رواں آذربائیجان سے تعلق رکھنے والے پچپن سالہ بزنس مین اور سائنسدان ایگور آشوربیلی ہیں. اسگارڈیہ خلاء میں قائم ایک ایسی سلطنت ہے جسکا دارالحکومت ایک سیٹلائٹ Asgardia-1 پر قائم ہے اور فی الحال اس کے انتظامی امور کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا سے چلایا جارہا ہے۔ اسگارڈیہ کے قائد جناب ایگور مستقبل میں چاند,مریخ اور دیگر سیارچوں پر اسگارڈیہ کی کالونیز قائم کرنے کا عزم رکھتے ہیں. مملکت اسگارڈیہ اپنا جھنڈا ,قومی ترانہ اور آئین رکھتی ہے. اسکے علاوہ مملکت کے لیئے وزراء اور چیف جسٹس کا انتخاب بھی عمل میں آچکا ہے۔

اسگارڈیہ کے شہریوں کا لقب اسگارڈین ہے . اسگارڈیہ کی کابینہ 150 افراد پر مشتمل ہے اور اس ریاست کے شہریوں کی تعداد اس وقت ڈھائی لاکھ کے قریب ہے. ہندی,عربی,فارسی,انگریزی سمیت دنیا کی بارہ زبانوں کو اسگارڈیہ کی سرکاری زبانوں کا درجہ دیا گیا ہے.
دنیا کی مشہور نجی اسپیس ٹرانسپورٹیشن اینڈ مینوفیکچرنگ ایجنسی “اسپیس ایکس” پہلے ہی اس منصوبے پر تعاون سے انکار کرچکی ہے لیکن بعد ازاں اسگارڈیہ کے تین سیٹلائٹس بشمول Asgardia-1 ناسا کے تعاون سے دسمبر 2017 میں خلاء میں بھیجے جاچکے ہیں۔ اس منصوبے کو اس وقت خلائی حدود کے تعین سمیت دیگر کئی چیلنجز کا سامنا ہے. نقّادوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک سیاسی منصوبہ ہے اوراس میں ابتداء سے ہی بہت سارے زمینی اور خلائی قوانین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔

اسگارڈیہ کا آئین اور اسکا تصور انتہائی اہم اور دلچسپ ہے. اسگارڈیہ کا آئین پینتیس صفحات پر مشتمل ہے .آئین کے مطابق اس مملکت کی بنیاد اعلی اخلاق اور اٹل سائنسی اصولوں پر رکھی گئی ہے. اس ملک کے شہری اپنے اپنے مذہبی عقائد اور ثقافت کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی رکھتے ہیں. اسگارڈیہ میں سیاست کی کوئی گنجائش نہیں البتہ اسگارڈین دنیا کی سیاست میں حصّہ لے سکتے ہیں۔ یہ روحانی اصولوں پر قائم کی گئی سیکولر ریاست ہے اور اسکے شہری بنیادی طور پر دنیا کے محافظ کا کردار ادا کریں گے. اسگارڈین کو دہری شہریت کی اجازت ہوگی اور یہاں کا ہر شہری عالی دماغ اور سائنسی علوم میں انتہائی تربیت یافتہ ہوگا.
ایگور آشوربیلی نے اسگارڈیہ کا تصور ناروے کے قدیم دیومالائی مذہب کے “نوعالمین” کے تصور سے اخذ کیا ہے. اس عقیدے کے مطابق اسگارڈ ایک ایسا عالم ہے جس پر زمین اور انسانوں کی حفاظت پر مامور دیوی دیوتا رہتے ہیں اسکے علاوہ حق وسچائی کی جنگ میں شہید ہونیوالوں کی ارواح بھی اسی عالم میں رہتی ہیں۔

مملکت اسگارڈیہ ” متحدہ انسانیت” کی بات کرتی ہے۔ یہ تصور معنوی لحاظ سے انتہائی خوبصورت ہے لیکن آنے والے وقتوں میں یہی تصور انسانوں کو بدترین خلائی جنگ اور انسانی غلامی کے دور میں پہنچا سکتا ہے. دوسرے سیاروں میں بسنے والے انسان اپنے وجود میں تبدیلی کرکے خود کو بہترین اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل ٹرانس ہیومنز یعنی “بشر کامل” میں تبدیل کرلیں گے اور ٹیکنالوجی کی مدد سے زیادہ مضبوط لیکن کم فہم والے انسان بھی تیار کیئے جاسکتے ہیں تاکہ دوسرے سیاروں میں آبادکاری کے منصوبوں میں ان سے کام لیا جاسکے. لگتا ہے کہ نارویجنز اور یونانیوں کا تصور گارڈینز اور ہالی ووڈ کی فلموں کا مشہور تخیلاتی کردار “سپرمین” پھر سے جی اٹھنے والا ہے۔

مجھے ذاتی طور گلوبل ویلیج اور ایک عالمی انسانی کنبہ کا تصور بہت پسند ہے. مہا اپنیشد کی آیت ” ساری دنیا ایک کنبہ ہے ” دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہندوستان کے سب سے اعلیٰ ایوان کے اوپر کندہ ہے لیکن ہندوستان کے سماج میں موجود طبقاتی تقسیم اور شدت پسندی اس اصول کی نفی کرتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی اکیسویں صدی میں دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی مذہبی اور سیاسی شدت پسندی اسگارڈیہ کے اس “یک قومی” تصور کو کبھی پروان چڑھنے نہیں دے گی کیونکہ تقسیم, اختلاف اور ٹکراؤ انسان کی فطرت میں شامل ہیں۔

گزشتہ سو برسوں کے دوران برطانیہ,امریکہ ,روس,سعودی عرب,اسرائیل اور ایران کی خطّے کے وسائل پر قبضے کی جنگ نے مشرق وسطی کی جنت جیسی سرزمین کو جہنم بنا کر کروڑوں انسانوں کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ ایسے میں خلاء اور دوسرے سیاروں کے حدود اور وسائل پر قبضے کی جنگ مستقبل میں انسانیت کو کن خطرات سے دوچار کرسکتی ہے اسکا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے. اس صورتحال میں پسماندہ اور ترقی پذیر اقوام کی وقعت کیا ہوگی یہ ہم سب جانتے ہیں۔

جس دن انسان نے پہلی بار خلاء کا سفر طے کر کے چاند پر قدم رکھا تھا اسی دن بہت سارے قدیم فلسفیانہ سوالوں اور مسائل نے انسانی دماغوں میں ہلچل مچانا شروع کردیا تھا۔ ایک طرف چندا ماموں اور چاند پر چرخہ کاتنے والی بڑھیا کی موت ہوئی تھی تو دوسری طرف نئے جہانوں کے تصور اور دیومالائی کہانیوں میں موجود دوسری دنیا کی مخلوقات اور خلائی جنگوں کے تصورات کو پھر سے زندگی مل گئی تھی۔

دنیا کی بڑی اسپیس ایجنسیاں جن میں ہمسایہ ملک بھارت کی اسپیس ایجنسی بھی شامل ہے خلاء کو سر کرنے اور کسی خلائی مخلوق سے ملاقات کی تیاریوں میں مصروف ہیں وہی ہم پاکستانی بحیثیت قوم پاکستانی سیاست میں خلائی مخلوق کی اصطلاح ایجاد کرکے خود کو دانشوروں میں شمار کررہے ہیں۔ ایسے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خلائی فورس کے قیام کے حوالے سے دیا جانے والا بیان اگر پاکستانی عوام کے نزدیک مضحکہ خیز ہے تو حیرانی کی بات نہیں۔