منظور پشتین جیت چکا ہے
سلمان درانی
ارباب اختیار آج تک یہ سادہ سا اصول سمجھ ہی نا پائے کہ جب آپ خطرے کو باہر کی طاقتوں پر پھینکنا ہی تمام خطرات کے ختم ہونے کی ضمانت سمجھیں گے تو آپ کے ساتھ بالکل وہی ہوگا جیسا کہ بنگلہ دیش کے وقت پر ہوا تھا۔
منظور پشتون کا آرٹیکل جو کہ نیو یارک ٹائمز پر چھپا پوری دنیا نے پڑھا مگر پاکستان میں سینسر کردیا گیا۔ پھر ہم رات کو ڈاکٹر معید پیر زادہ جیسے گدھوں کو پروپیگنڈا کرنے بٹھا دیتے ہیں کہ سارا مغرب پشتین کا ساتھ دے رہا ہے۔ بھائی آپ نے خود خطرے کو باہر جانے دیا۔ آپ ان کے نکتہ نظر تک کو اپنے ہاں جگہ نہیں دے رہے تو توقعات کیسی؟
ہم ان کے لوگوں کو قتل کررہے ہیں اور غداری کے مقدمات میں جیلوں میں ڈال رہے ہیں۔ وہ آپکو پھولوں کے ہار تو پہنانے سے رہے۔
ایک رات افغان صدر کے فقط دو ٹویٹس سے آخر ہمیں مسئلہ کیا ہوا؟ ہمارے لئیے تو یہ بات عام تھی کہ منظور غیر ملکی ایجنٹ ہے۔ تو اس نومولود تحریک کے حق میں ایک ٹویٹ ہمارے لئیے اس قدر تکلیف کا سبب بنی، اس کو شاید میں سائنسی طور پر سمجھنے کی کوشش کرکے غلطی کررہا ہوں، اس کا تعلق تو ہمارے جذبات سے ہے، پاکستانیت سے۔ ہم خطرے کو جتنا باہر اور اونچا اچھالیں گے، ہم اتنے اچھے پاکستانی ہونگے۔
جویریہ نامی ایک اینکر ٹویٹر پر سوال کرتی ہیں کہ سارا مغرب ایک نومولود تحریک کو اتنا پش کیوں کررہا ہے، ان کو اس سوال کا جواب چاہیے تھا، ان کے مطابق یہ پاکستان کے خلاف سازش ہے۔
محترمہ، پاکستان کے خلاف یہ ٹھیک ویسی ہی سازش ہے جیسی عرصہ دراز سے پاکستانی حکمران مغرب سے مل کر عوام کے خلاف کرتے آرہے ہیں۔ پشتین کو اگر امریکہ اسپانسر کررہا ہے تو ایک عرصے سے یہ ہمارا ریاستی اسپانسر بھی تو رہا ہے۔ آپ اس وقت اپنے ’ابا جان کے ارادوں‘ میں پائی جاتی تھیں، کبھی باقی سب چھوڑ کر کتابیں بھی اٹھایے، کچھ پڑھیے اور پھر کسی سیٹھ کے ہاتھوں میں کھیلیے۔ نہیں تو بعد میں بہت ندامت ہوگی۔
ہمارے ہاں جج ہوں جرنیل، یا سیاستدان۔ حال میں کی گئی غلط کاریوں کا بوجھ ریٹائرمنٹ کے بعد کتابیں لکھ کر ہلکا کرتے ہیں۔ حال کے غلط کو غلط سمجھنا بہت باضمیر لوگوں کا کام ہے، بنگلہ دیش کی علیحدگی کے وقت وہ واحد ضمیر یہ کہتا پایا گیا کہ محبت گولیوں سے بو رہے ہو،، وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو۔ وہ شخص تب جیل سے باہر رہنا بزدلی اور بیغیرتی سمجھتا تھا، جی حبیب جالب۔ باقی کے صحافی اور صحافتی ادارے اس وقت سرکاری اداروں کا درجہ پا چکے تھے اور صحافی سرکاری افسران۔۔ اس وقت سے ہی سبق ادھار لے لیجے اور سچ کا ساتھ دیجے، یقین مانیے کہ یوں لڑی گئی بیانیے کی جنگ آپکی انہی نالائقی کی وجہ سے منظور جیت چکا ہے، مزید کیا پیش کریں گے کہئیے۔