منظور پشتین کا ٹوئٹر اکاؤنٹ معطل، ایک اور غلطی

عاطف توقیر

منظور پشتین اور ان کی تحریک کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن بالکل بھی عجیب نوعیت کا نہیں۔ آج کل کے ذرائع مختلف ہو گئے ہیں مگر ریاستی رویہ ہر گز نہیں بدلا۔ چوں کہ ریاستی رویہ نہیں بدلہ تو نتائج بھی بار بار ایک ہی جیسے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ جب پی ٹی وی یا ریڈیو پاکستان کو دور تھا، تو اس وقت معلومات کے ان واحد ذرائع کو ریاستی اشرافیہ اپنے پروپیگنڈا کے لیے استعمال کرتی تھی اور حقوق کے لیے اٹھنے والی ہر آواز کے خلاف پاکستانی شہریوں کے دلوں میں نفرت کے زہر گھولا کرتی تھی۔

فاطمہ جناح کو غدار اور غیرملکی ایجنٹ ثابت کرنے کے لیے اس وقت ایک منظم مہم چلائی گئی تھی اور قوم اس وقت مادر ملت یعنی اپنی ماں کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے پروپیگنڈا پر یقین کرتے ہوئے آمر جرنیل ایوب خان کے پروپیگنڈا کی وجہ سے شش و پنج میں تھی۔ تاریخ آگے بڑھ گئی، فاطمہ جناح دنیا سے رخصت ہو گئی اور تاریخ نے ہمیں بتایا کہ وہ کون تھیں اور ہم کس پر یقین کر رہے تھے۔

اگر کوئی انسان خود حالات و واقعات کو دیکھنے کی بجائے پروپیگنڈا اور ریاستی بیانیوں پر یقین کرے، وہ ریاستی بیانیے جن کا مقصد قوم کے حقوق کا تحفظ نہیں بلکہ جرنیلوں، سرداروں، سیاست دانوں، وڈیروں اور خانوں، کا تحفظ ہے، تو پھر فیصلہ وقت اور تاریخ کرتے ہیں۔ مگر وقت اور تاریخ کے فیصلے کی سب سے گھناؤنی بات یہ ہے کہ ان کا فیصلہ صرف فیصلہ نہیں بلکہ اپنے ساتھ ایک تلخ اور سانحے پت مبنی سبق بھی ساتھ لاتا ہے۔

فاطمہ جناح کی تحریک میں مجیب الرحمان اور ان کی جماعت فاطمہ جناح کے ساتھ تھے، مگر مغربی پاکستان میں ہم کتیا کے گلے میں لالٹین (فاطمہ جناح کا ایوب خان کے مقابلے میں انتخابی نشان) لٹکا کر مادر ملت کو گالی دے رہے تھے۔ وقت نے فاطمہ جناح اور ایوب خان دونوں کے کردار کو ثابت کر دیا مگر ایک سبق دیا اور وہ یہ کہ اس ملک میں جمہوریت کبھی اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑی نہ ہو سکی اور یہ ملک مسلسل انتشار اور اندرونی تقسیم کا شکار ہو گیا۔

جب ریاستی ادارے مجیب الرحمان اور بنگالیوں کو جائز اور دستوری حقوق مانگنے پر غدار اور انڈین ایجنٹ پکار رہے تھے، تو ہم یہ دیکھنے کی بجائے کہ مجیب الرحمان یا ان کی تحریک کی موقف کیا ہے، جرنیلوں کے بیانیوں پر یقین کرتے رہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ تحریک پاکستان میں پیش پیش بنگالی اس ملک کے دشمن نہیں تھے، بلکہ مغربی پاکستان کے حاکم اصل میں اس ملک کو توڑنے والے اصل کردار تھے۔ وقت نے ثابت تو کر دیا مگر سبق ملک ٹوٹنے کی صورت میں دیا۔ ایک ایسا زخم جو اس ملک کی پوری تاریخ میں ایک بدنما داغ کی صورت میں موجود رہے گا۔ حمود الرحمان کمیشن کئ رپورٹ پچاس سال گزر جانے کے باوجود پوری اور مکمل شکل میں عوام کے سامنے نہ رکھنے کی مصلحت آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔ اس رپورٹ میں درج تھا کہ ملک کیوں ٹوٹا۔ اگر اس کا ذمہ دار مجیب الرحمان ہوتا تو یہ رپورٹ آج اسکولوں میں پڑھائی جا رہی ہوتی۔

استاد اور وقت میں ہر شے ایک سی ہوتی ہے، کیوں کہ یہ دنوں ہمیں سبق سکھاتے ہیں، فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ استاد ہمیں پہلے سبق سکھاتا ہے اور پھر امتحان لیتا ہے جب کہ وقت پہلے امتحان لیتا ہے اور پھر ایک سبق سکھاتا ہے۔ کہتے ہیں ہوش مند وہی ہے جو اگر ایک غلطی سے نقصان اٹھا لے تو پھر دوبارہ وہ غلطی نہ دہرائے۔ مگر بدقسمتی ہے کہ ہم نے بہ طور قوم جن غلطیوں سے نقصان اٹھایا وہی غلطیاں دوبارہ دہرائیں۔

بنگال میں دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے اور نوے ہزار فوجی قدیر کروا دینے کے بعد جرنیلوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے تھا کہ حقوق کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو بندوق سے دبانا ممکن نہیں ہوتا اور ملک کی بقا صرف اور صرف اقتدار اعلیٰ پر عوام کے حق اور دستور کت مطابق ہر شہری کے بنیادی حقوق کی ترسیل میں مضمر ہے۔ مگر اس اشرافیہ نے سبق نہ سیکھا۔ سکوت مشرقی پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد بلوچستان میں فوج چڑھا دی گئی اور وہاں بھی حقوق کے لئے ملکی دستور کی ضمانت کی بنا پر اٹھنے والی آوازوں کو گولی اور بندوق سے دبانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اور ہمیں یہاں بتایا گیا کہ بلوچ پاکستان کے خلاف ہیں اور غدار ہیں۔ ہم نے بھی ماضی سے کچھ نہ سیکھا اور ایک بار پھر جرنیلوں کے اسی بیانیے کو من و عن تسلیم کر لیا۔ وہاں ہمارے بھایئوں کا خون بہتا رہا اور ہم یہاں زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔

اس دوران فوج نے سیاسی انجیئرنگ کا کھیل، جسے بہت پہلے شروع کر دیا تھا، جاری رکھا۔ سیاسی جماعتیں بنانا اور توڑنا، سیاسی رہنما کو خریدنا اور بیچنا، کم زور اور کرپٹ لوگوں کو سامنے لانا اور عوام کے نمائندوں کو ایجنٹ اور غدار قرار دے کر ان کے خلاف ایک مہم شروع کرنا، یہ سلسلہ جاری رہا۔
انسان کوئی بھی ہو اس کے اعصاب کی ایک حد ہوتی ہے۔ جسم اور روح کا درد اپنی حد عبور کر لے تو موت خود ایک نعمت معلوم ہونے لگتی ہے اور ہماری ریاستی اشرافیہ ہر برادری کو بار بار اس حد کو عبور کروا کر دکھ دیتی رہی ہے۔

ریاست کسی علاقے پر بسنے والے افراد کت درمیان بنیادی نوعیت کے ایک معاہدے پر قائم ہوتی ہے، جسے دستور کہتے ہیں۔ دستور میں تمام اقوام اور برادریوں کو مساوی حقوق کی ضمانت دے کر انہیں آپس میں جوڑا جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں معاملہ کچھ مختلف ہے۔ جب کوئی اس دستور کے مطابق اپنی شہری آزادیوں، اپنے جائز حقوق اور اپنے زندگی سے متعلق آواز اٹھاتا ہے تو ریاست خود وہ معاہدہ توڑ کر اسے ایجنٹ یا غیرملکی آلہ کار قرار دے کر معاشرتی دھارے سے الگ کر دیتی ہے اور نفاق کی ایک دراڑ پیدا کر دیتی ہے، جو دھیرے دھیرے ریاست سے نفرت کی طرف بڑھتی چلی جاتی ہے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے ساتھ بھی جو کچھ ہو رہا ہے، یہ ٹھیک وہی ہے جو ہم اس سے پہلے اپنے ملک کی تاریخ میں مختلف مواقع پر دیکھتے آئے ہیں۔

اسلام آباد میں پرامن دھرنا دیا گیا، تو میڈیا کوریج روک دی گئی۔ حالاں کہ اس وقت نہ کوئی سخت گیرے نعرے لگ رہے تھے اور نہ اس قدر غصہ اور نفرت تھی۔ ان دھتکارا گیا تو رفتہ رفتہ لہجے بھی سخت ہوتے گئے اور غصہ بھی۔ میڈیا پر اس تحریک کا مکمل بلیک آوٹ رہا اور ان سے گفت گو کرنے کی بجائے ملکی فوج کے سربراہ تک نے ایک غیرضروری اور غیر ذمہ دارانہ بیان دیتے ہوئے اس تحریک کو غیرملکی سازش قرار دے دیا۔ یعنی یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ان کے مطالبات اگر دستوری ہیں تو پھر ملکی ایما پر ہو کہ غیرملکی تحریک جائز اور قانونی ہے اور اس سے مکالمت ہونا چاہیے۔ یا اگر واقعی ان کے درپردہ کوئی غیرملکی یا ملک دشمن قوت ہے اور آپ کر معلوم ہے یا آپ کے پاس ثابت ہیں، تو انہیں اس پر عدالت سے سزا دلوانا کس کا کام ہے؟

پشاور میں جلسہ کیا گیا، تو وہ علاقہ مکمل طور پر سیل کر دیا گیا۔ آنے جانے والوں کو پریشان کیا گیا، لوگوں کو خفیہ اداروں کی جانب سے دھمکیاں دی گئیں، جامعات کے طلبہ کو نامعلوم نمبروں سے فون کر کے دھمکایا گیا، میڈیا کو کوریج سے روکا گیا حتیٰ کے اس علاقے کی انٹرنیٹ سروس تک بند کر دی گئی۔ ایسے میں اس تحریک کے لوگ اپنے ردعمل میں غصے کا اظہار نہیں کریں گے تو کیا کریں گے۔

لاہور میں جلسہ ہوا، تو وہاں اس تحریک کے لوگوں کو پھر ڈرایا گیا، رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا، جلسے کی این او سی منسوخ کر دی گئی، پھر نامعلوم نمبروں سے فون آنے لگے، پھر دھمکیاں موصول ہونا شروع ہو گئیں یہاں تک کہ اجتماع گاہ میں گندہ پانی چھوڑ کر اس جلسے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ آپ خود کو ان کی جگہ رکھ کر دیکھ لیں،آپ کو ریاست پر غصہ نہیں آئے گا تو کیا پیار آئے گا؟

آج سوشل میڈیا پر وزیرستان میں مقامی افراد اور فوجیوں کے درمیان تلخ کلامی کی ویڈیوز دیکھیں تو ایک بار پھر سوچنے لگا کہ ہم پھر اسی جانب جا رہے ہیں، جہاں ایک اور تباہی ہماری منتظر ہو گی۔ ابھی تلخ کلامی ہے، پھر جھگڑے ہوں گے، پھر تصادم ہو گا، پھر ریاست کے تئیں غصہ اور نفرت اور بڑھے گی، پھر جھڑپیں ہوں گی، پھر اور خون بہت گا، پشتونوں کے درمیان بھی لڑائی ہو گی، فوجیوں اورسکیورٹی فورسز پر بھی حملے ہوں گے، دونوں طرف ہمارے ہی لوگ مریں گے اور نفرت مزید بڑھتی جائے گی، یہاں تک کہ وہاں ریاست ہی کے خلاف نعرے بازی شروع ہوجائے گی اور ممکن ہے کہ ہم ایک باقاعدہ مسلح تنازعے کی طرف نکل جائیں۔

ریاست سمجھ لے کہ جب بھی کسی تحریک میں نوجوان شامل ہوں، ان پر طاقت کا استعمال کام نہیں کرتا۔ مجیب الرحمان کے ساتھ بنگال کے نوجوان تھے، جرنیلوں نے عقل کے ناخن نہ لیے اور حکم رانوں نے دستور کی بالادستی یقینی نہ بنائی تو انہیں “ملتی باہنی” بننے میں دیر نہ لگی۔ ایسی ہی دراڑوں سے وطن دشمن فائدہ اٹھاتے ہیں مگر معاملہ ان کے فائدہ اٹھانے کا نہیں ہمارے دراڑیں بنانے کا ہے۔ ہم جب کسی دشمن کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ ہماری تقسیم کا فائدہ اٹھائے تو وہ کیوں نہیں اٹھائے گا؟ کیا آپ یا میں اپنے دشمن کی کسی کم زوری سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے؟

اس لیے ریاست اس خوف ناک راستے کو اختیار کرنے کی بجائے اور طاقت کا استعمال اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی بجائے ان نوجوانوں کو اپنا سمجھے اور ان سے دستوری دائرے میں عہ کر مکالمت کرے اور دستور کی بالادستی یقینی بنائے۔
منظور پشتون کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کی معطلی لیکن یہ بتا رہی ہے کہ ریاستی ادارے ایک مرتبہ پھر پرانی غلطی دہرانے ہی کی روش پر ہیں اور غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا ایک نیا سانحہ ہمارا منتظر ہے۔ اگر کسی کو یہ لگتا ہے کہ ٹوئٹر اکاؤنٹ بند کرنے یا فیس بک یا یوٹیوب تک رسائی روکنے سے آواز سنائی دینا بند ہو جائیں گی، تو وہ نہایت غلطی پر ہے۔ اس سے نفرت کے نئے راستے تو جنم لیں گے مگر خاموشی نہیں ہوگی۔