منظور پشتین کو سنا جانا کیوں ضروری ہے؟
مہناز اختر
’’مومنو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو (مبادا) کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو۔ پھر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔ اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے۔ پس جب وہ رجوع لائے تو دونوں فریق میں مساوات کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (سورة الحجرات کی چند ابتدائی آیات کا ترجمہ)۔
گزشتہ دنوں تسلسل سے مین اسٹریم میڈیا پر منظور پشتین اور پشتون تحفظ موومنٹ کے حوالے ایک جیسے خبریں آرہی تھیں۔ اس تحریک کے دو اہم رہنما اور ارکان اسمبلی پہلے ہی گرفتار کیئے جاچکے ہیں۔ ان حالات میں معلومات حاصل کرنے کا ایسا کوئی ذریعہ موجود نہ تھا جس کی مدد سے دوسرے فریق کا مؤقف سنا جاسکے۔ منظور پشتین سچا ہے یا جھوٹا دونوں صورتوں میں اسے سنا جانا ضروری ہے کیونکہ جب تک ہم حالات و واقعات کا دوسرا رخ نہیں دیکھتے ہم سچ جاننے یا درست نتیجے پر پہنچنے سے قاصر رہتے ہیں۔ مذکورہ بالا آیات میں بھی خبر کی تصدیق کرنے کی تلقین کی جارہی ہے۔ ہم اکثر یک طرفہ موقف یا افواہ کی بنیاد پر غلط نتائج اخذ کرلیتے ہیں۔ قرآن میں اس حوالے سے موسٰیؑ اور دوسری جگہ پر داؤدؑ کا واقع درج ہے۔ عثمان غنیؓ کی شہادت کی افواہ کی خبر، خبر کی تحقیق سے متعلق انتہائی اہم مثال ہے۔ خیر اسی دوران 9 جون کو منظور پشتین نے فیس بک کے ذریعے لوگوں سے اردو میں خطاب کیا اور اس میں تمام تر الزامات کا جواب دیا ، اپنے پانچ مطالبات کو پھر سے دہرایا اور ماضی کے واقعات سمیت خڑکمر چیک پوسٹ کے واقعے کو بھی بیان کیا اور بتایا کہ ریاست ان کے خلاف بدترین اور یک طرفہ پراپگینڈا کررہی ہے۔
منظور پشتین نے کہا، “2004 میں ساؤتھ وزیرستان کے حوالے سے پہلی بار حکومت اور دنیا نے دعوی کیا کہ یہاں پر دہشت گرد موجود ہیں۔ جب انکی موجودگی وہاں ظاہر ہوگئی تو اسکے خلاف وہاں پر سب سے پہلا لشکر بنانے والے شخص علی وزیر کے بڑے بھائی فاروق وزیر تھے۔ جن کو بعد ازاں دہشت گردوں نے قتل کردیا۔ اس کے بعد سے وزیر قبائل اور ان کی پوری فیملی یکے بعد دیگرے یہ کوشش کرتی آرہی تھی کہ کسی طرح وانا سے ان دہشت گردوں کو نکال دیا جاۓ۔ 2005 میں وانا کے علاقے میں قومی لشکر اور عوام چار دن تک ان دہشت گردوں کے خلاف مستقل لڑتے رہے اور 164 قبائلیوں نے شہادتیں دے کر وہاں سے دہشتگردوں کو نکال دیا۔ ہم مانتے ہیں کہ وہاں کے کچھ خاندانوں نے دہشت گردوں کو پناہ دی تھی لیکن اسی علاقے کی عوام نے انہیں وہاں سے نکال بھگایا تھا۔ آج تک انہیں پناہ دینے والے چند خاندانوں کا ذکر تو کیا جاتا ہے مگر ان لوگوں کا نہیں جنہوں نے انہیں نکالنے کے لیۓ قربانیاں دیں۔ اس کے بعد علی وزیر کے خاندان کو ایک ایک کرکے نشانہ بنانا شروع کردیا گیا اور اب تک ان کے خاندان کے سترہ افراد شہید ہوچکے ہیں۔ 2004 میں میری عمر دس سال تھی۔ اس وقت سے ہمارے علاقے کے تقریباً 1400 مشران جو دہشت گردی کی مخالفت کرتے تھے انہیں ایک کہ بعد ایک کرکے شہید کردیا گیا۔ پچیس فیصد مشران کے قتل کی ذمہ داری طالبان نے لی باقیوں کا قتل نامعلوم افراد کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔
2009 آپریشن راہ نجات کے وقت ساؤتھ وزیرستان کا پورا محسود قبیلہ اپنے علاقوں سے نکل کر آئی ڈی پیز بن گیا۔ ہم نے اپنا علاقہ اس لیۓ چھوڑا کہ پاک فوج نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں ہم اس علاقے سے دہشت گردوں کا مکمل صفایا کرنا چاہتے ہیں۔ دوستوں ” آئی ڈی پیز” آپ کو سننے میں ایک لفظ لگتا ہے ۔ ہم آٹھ سال تک آئی ڈی پیز رہے ہیں اور ان آٹھ سالوں کی ذلیل زندگی کی ترجمانی یہ ایک لفظ نہیں کرسکتا۔ آئی ڈی پیز بھکاریوں کی طرح قطار میں کھڑے ہوکر روٹی مانگتے تھے کیونکہ اور کوئی راستہ نہ تھا۔ 2014 شمالی وزیرستان کے علاقے میرعلی میں فورسز نے ایک گھر پر حملہ کرکے خواتین اور بچوں سمیت 28 افراد کو ہلاک کردیا ۔ اس واقعے پر میرا احتجاج آج بھی ریکارڈ پر ہے تب میں اسٹوڈنٹ تھا۔ اس کے ایک ہفتے بعد اس کالج کے پرنسپل ثناء اللہ کے گھر پر بمباری کی گئی۔ جس کے نتیجے میں انکی بیوی، بیٹے اور بیٹیاں شہید ہوۓ۔ ہم نے اس کے خلاف بھی احتجاج کیا۔ میرے پاس اسی دن ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی کہ آئندہ آپ کو اس طرح کا احتجاج نہیں کرنا ہے۔ میں نے پوچھا آپ کون ہیں؟ جواب آیا “ہم آئی ایس آئی والے ہیں”۔ اس وقت طالبان اور آئی ایس آئی دونوں عام عوام کو مار رہے تھے۔
2016 میں ہماری واپسی شروع ہوئی۔ اس سے پہلے جہاں جہاں مہاجرین موجود تھے وہاں نقیب اللہ محسود کی طرز پر ہی ہمارے لوگوں کو گھر سے اٹھا کر شہید کردیا جاتا تھا۔ ہم اس وقت سے احتجاج کرتے چلے آرہے ہیں لیکن ہمیں کوریج نہیں ملتی تھی۔ تقریباً سارے مَشران شہید کردئیے گۓ تھے۔ ہمارے علاقے کے آخری مَشر مولانا معراج الدین صاحب نے نیشنل اسمبلی میں آخری بار اپنی تقریر میں فوج پر سخت تنقید کی تھی کہ وہ وہاں پر عام لوگوں پر بمباری کرتے ہیں۔ آپ کو دہشت گردوں کے ساتھ جو کچھ کرنا ہے کریں لیکن عام عوام پر بمباری نہ کریں۔ اس تقریر کے بعد وہ گھر واپس آرہے تھے تو ٹانک کے قریب ایک چیک پوسٹ کے سامنے ان پر حملہ کردیا گیا۔ اخبارات اور ٹی وی پر خبر چلی کے نامعلوم افراد نے انہیں شہید کردیا۔ 2016 میں پاکستانی فوج نے اعلان کیا کہ فلاں فلاں علاقے صاف ہیں۔ آپ لوگ واپس آجائیں۔ جب ہم آئی ڈی پیز اتنے سالوں کی ذلت آمیز زندگی گزارنے کے بعد پہلی بار خوشی خوشی اپنے گھر واپس جارہے تو پہلے چیک پوسٹ پر ہی ہم پر گالیاں برسائی گئیں۔ ہمارے گھر تباہ کردئیے گۓ تھے۔ وزیرستان کی نئی تعمیر شدہ مارکیٹ کی اینٹیں اور گارڈر تک ہمارے گھروں کے میٹیریل سے تیار کیا گیا تھا۔ آپ میری بات نہ مانیں بس کبھی ریسرچ کی خاطر ہمارے علاقوں میں آئیں۔ وہاں کوئی تو دین دار اور خوف خدا رکھنے والا انسان ہوگا۔ اس سے دریافت کریں کہ کیا یہ باتیں سچ ہیں یا جھوٹ؟ میرے گھر کی تین بڑی الماریاں میرے والد صاحب کی کتابوں سے بھری تھیں۔ جنہیں چوک پر جلادیا گیا تھا۔
اپنے علاقوں میں دوبارہ وہی ذلت دیکھنے کے بعد وہ لوگ جو دوسرے شہروں میں گھروں کا کرایہ ادا کرسکتے تھے وہ واپس علاقہ چھوڑ گۓ اور وہاں پر ہم جیسے لوگ رہ گۓ جو دوسرے شہر میں کرایے کے گھر میں رہنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ وہاں ہم چیک پوسٹوں پر ذلت اٹھاتے اور ہر ہفتے کوئی نہ کوئی لینڈ مائنز کا شکار ہوکر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ وہاں ہونے والے ہر دہشت گردی کے واقعے پر ٹارگٹڈ آپریشن کے بجاۓ پورے علاقے کو اکٹھا کرکے سزا دی جاتی تھی۔ مینو نامی ایک نوجوان چرواہے کو اسکے والدین کے سامنے تشدد کرکے شہید کردیا گیا۔ میڈیا والے آکر اس کے خاندان سے ملیں۔ ہم احتجاج تک نہیں کرسکتے تھے۔ ہمیں کہا گیا تھا کہ وزیرستان کلئیر ہے۔ ہمارے علاقے میں ایک بہترین ہسپتال بنایا گیا تھا لیکن وہ بند رہتا تھا اور اس میں فوج اور این جی اوز والے رہتے تھے۔ جب بھی کوئی جرنیل یا میڈیا والے دورے پر آتے تو صرف اسی دن یہ ہسپتال کھولا جاتا تھا۔ ہم آٹھ سال مہاجرت کی ذلت اٹھا کر واپس آۓ تو جنہیں طالبان کہا جاتا تھا وہی لوگ فوج کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور گھومتے تھے۔ آپ میڈیا والے آج بھی وزیرستان آجائیں میں لوگوں کو ذبح کرنے والے طالبان کو دکھاؤنگا جو آرمی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ میری بات جھوٹ ہو تو مجھے پھانسی پر چڑھادیں۔ وزیرستان میں دہشت گردی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو یا تو غائب کردیا جاتا تھا یا وہ قتل کردیئے جاتے تھے۔ اسی صورتحال کے پیش نظر ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ یہاں تو ہمارا انجام بھی وہی ہوگا جو باقیوں کا ہوا۔ باہر نکل کر احتجاج کرنے سے چاہے ہمیں قتل کردیا جاۓ لیکن کم از کم دنیا کو معلوم تو ہوگا کہ کوئی واقعہ ہوا ہے “
یہ خطاب ایک گھنٹے سے زائد دورانیہ کا ہے۔ میں نے اختصار کی وجہ سے صرف کچھ حصے یہاں قلمبند کیۓ ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ منظور پشتین کو ملک دشمن سمجھنے والے افراد بھی کم از کم خبر کا دوسرا رخ جاننے کے لیۓ اس خطاب کو ضرور سنیں۔ منظور پشتین نے اس خطاب میں انتہائی تفصیل اور تحمل سے بتایا ہے کہ انہیں حکومت اور ریاستی اداروں سے کیا شکایات ہیں۔
ہم عرصہ دراز سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ ملک حالت جنگ میں ہے تو کیا اب یہ سوال نہیں اٹھایا جانا چاہیے کہ ملک حالت جنگ میں کیوں ہے؟ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ پورے ملک میں جاری آپریشنز اور گرفتاریاں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پالیسی کا حصہ ہے۔ تو کیا یہ نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ کہیں ان پالیسیوں یا جنگ کے طریقہ کار کی زد میں عام قبائلی یا دیگر علاقوں کی عوام تو نہیں آرہی؟
یہ کیسی پالیسی ہے کہ آپ منظور پشتین یا اس تحریک کے کسی نمائندے کو قومی ابلاغ کا الیکٹرانک پلیٹ فارم دینے کو تیار نہیں ہیں۔ آپ نے علی وزیر اور محسن داوڑ کو اسمبلی میں اپنے دفاع اور الزامات کا جواب تک نہ دینے دیا۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ لوگ مسلسل ریاستی جبر سے تنگ آکر ہتھیار اٹھالیں اور پہاڑوں پر چلے جائیں تاکہ آپ انہیں باقاعدہ دہشت گرد قرار دے کر ان سے ویسے ہی مذاکرات کریں جیسے طالبان سے کرتے ہیں پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا جواز بنا کر دفاعی اخراجات بڑھاتے جائیں اور تعلیمی بجٹ گھٹاتے جائیں۔
کیا اس ملک کو شیمپو کی بوتل سے لے کر پیٹرول مصنوعات تک میں ٹیکس ادا کرنے والی عوام کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ انہیں میڈیا کے ذریعے مکمل اور غیرجانبدار معلومات فراہم کی جائیں؟
تاکہ وہ جان سکیں کہ ہمارے ملک کا اہم ترین دفاعی ادارہ کیسے کام کرتا ہے اور کہیں یہ ادارہ واقعی انسانی حقوق کی پامالی کا مرتکب تو نہیں ہورہا ہے۔