مولانا ابو الکلام آزاد

مہناز اختر

22 فروری کے روز پاک و ہند میں مذہبی عصبیت سےآزاد سیاست کا نظریہ دینے والے عقاب عبقری ہند، صاحب دیدہ و دانا  مولانا ابو الکلام آزاد  کی برسی کا یوں خاموشی سے گزر جانا اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ خطّے میں  مولانا کے خدشات و اشارات کے عین مطابق مذہبی عصبیت اور سیاست ہم آہنگ ہو چکے ہیں۔ آج ہندو اکثریتی ہندوستان میں ’ہندوتوا‘ اور مسلم اکثریتی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ’اسلام‘ خطرے میں ہے اور ان کی حفاظت کا ذمہ مفاد پرست سیاستدانوں اور مذہبی جنونیوں نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھا ہے۔

جس طرح عقاب اپنی بصری صلاحیتوں اور دور بینی میں حیوانات میں افضل ہے، بالکل ویسے ہی مولانا کی بصیرت اور دور اندیشی نے انہیں سب سے منفرد مقام پر براجمان کر دیا ہے۔ میرا ان کے لیے کچھ بھی کہنا سورج کے آگے چراغ رکھنے  جیسا ہے۔ اس لیے مولانا کی کتاب ’انڈیا ونس فریڈم (آزادی ہند)‘ سے  چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ مولانا کا جامع مسجد دہلی کا تاریخی خطاب سماعتوں  میں  محفوظ رکھتے ہوئےمندرجہ ذیل سطور کو پڑھیے۔ یہاں آپ اپنے سیاسی و علمی فہم کے مطابق مولانا  کے حوالے سے کوئی بھی رائے قائم کرنے کے لیے آزاد ہیں۔

’’سرحد والوں کی اکثریت نہیں، پھر بھی بڑی تعداد نے اس کے حق میں ووٹ دیئے ہوتے۔ انہیں پنجابیوں کے ذریعے نگل لیے جانے کا ڈر تھا۔ پنجابی پورے پاکستان پر غالب آجائیں گے اور پٹھان اور دوسری اقلیتوں کو اپنے جائز حقوق سے بھی محروم کردیں گے۔ بہت سے پٹھان اپنی چھوٹی سی ریاست کو ترجیح دیں گے کیونکہ انہیں پنجابیوں کے تسلّط کا خوف تھا۔‘‘

’’یہ ایک خطرناک جذبہ تھا اور اس کے نتائج بہت افسوسناک اور دور رس ہوسکتے تھے۔ ۔ ۔ ۔  تقسیم کو اس بنیاد پرتسلیم کیا جارہا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہ یرغمال رکھے جائیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ پاکستان میں ہندو اور ہندوستان میں مسلمان جبر اور قتل کا شکار ہوں گے۔‘‘

’’اس طرح ہندوستان نے اپنی آزادی حاصل کرلی مگر اپنی وحدت کھو دی۔ ۔ ۔ ۔  نئی ریاست کے لیڈروں کی اکثریت یو پی، بہار اور بمبئی سے تعلق رکھتی تھی۔ بہت سوں کے ساتھ معاملہ یہ تھا کہ وہ ان علاقوں کی زبانیں بول تک نہیں سکتے تھے جن پر اب پاکستان مشتمل تھا۔ اسی وجہ سے اس نئی ریاست میں حکمران اور عوام کے مابین ایک خلیج رہی۔ ۔ ۔ ۔  دس برس گزر چکے ہیں اور ابھی حال ہی میں (وہاں) ایک آئین وضع کیا جاسکا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یہ شکل بھی آخری نہیں لگتی کیونکہ جب دیکھو آئین میں مزید تبدیلیوں کی تجاویز ہوتی رہتی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔  پاکستان کی تخلیق کا واحد نتیجہ برصغیرہندوستان کے مسلمانوں کی پوزیشن کو کم کرنا تھا۔ ساڑھے چارکروڑ مسلمان جو ہندوستان ہی میں رہے وہ کمزور ہو گئے۔ دوسری طرف ابھی تک کوئی ایسا اشارہ نہیں ملا  جس سے پتہ چلتا کہ پاکستان میں ایک مستحکم اور مستعد حکومت قائم کی جاسکتی ہے۔‘‘

’’کیا کسی کو انکار ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی تخلیق نے فرقہ وارانہ مسئلے کو حل نہیں کیا بلکہ اسے اور زیادہ شدید اور ضرررساں بنا دیا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔  تقسیم کی بنیاد ہندوؤں اور مسلمانوں کی باہمی عداوت تھی۔ پاکستان کی تخلیق نے اسے ایک مستقل آئینی شکل دے دی اور اس کا حل کہیں زیادہ مشکل کردیا۔ اس صورتحال کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ برصغیرہندوستان دو ریاستوں میں منقسم ہوگیا جو ایک دوسرے کو نفرت اور خوف کے ساتھ دیکھتی ہیں ۔ پاکستان کو یقین ہے کے ہندوستان اسے چین سے نہیں رہنے دے گا اور جب بھی اسے یہ موقع میسّر آیا اس کو برباد کردے گا۔۔۔۔۔ اسی طرح ہندوستان کو یہ ڈر ہے کہ پاکستان کو جب بھی موقع ہاتھ آیا وہ ہندوستان کے خلاف اٹھے گا اور اس پر حملہ کردے گا ۔ اس نے دونوں ریاستوں کو اپنا دفاعی خرچ بڑھانے پر مجبور کر دیا ہے۔‘‘

’’مسلم اکثریتی علاقے شمال مغرب اور شمال مشرق میں تھے۔ ان دونوں علاقوں  میں طبیعی اعتبار سے کوئی نقطہ اتصال نہیں ہے۔ ان دونوں علاقوں  کے لوگ  سوائے مذہب کے ہر معاملے میں ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ یہ کہنا لوگوں کے ساتھ سب سے بڑا فریب کرنا ہے کہ مذہبی یگانگت ان علاقوں   کو متّحد کر سکتی ہے جو جغرافیائی، اقتصادی، لسانی اور ثقافتی اعتبار سے مختلف ہوں۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتا تھا جو نسلی، لسانی، اقتصادی اور سیاسی حد بندیوں  سے بالا تر ہو۔ مگر تاریخ نے بہرحال یہ ثابت کردیا ہے کہ شروع کی چند دہائیوں کے بعد یا زیادہ سے زیادہ پہلی صدی کے بعد اسلام تمام مسلم ممالک کوصرف اسلام کی بنیاد پر متّحد نہیں کرسکا۔‘‘

’’یہ تھی ماضی کی حالت  اور یہی حالت آج بھی ہے۔ کوئی یہ امید نہیں کرسکتا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان اپنے تمام اختلافات کو درست کرلیں گے اور ایک قوم بن جائیں گے۔ یہاں تک کہ مغربی پاکستان کے اندر سندھ، پنجاب اور سرحد کے تینوں صوبے بے آہنگی رکھتے ہیں اور اپنے الگ مقاصد اور مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ بہرکیف جو ہونا تھا ہوچکا۔ پاکستان کی نئی ریاست ایک حقیقت ہے، یہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کے مفاد میں ہوگا کہ اپنے دوستانہ تعلقات کو آگے بڑھائیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کریں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہوا وہ ناگزیر تھا، دوسری طرف اتنی ہی شدّت کے ساتھ لوگ اس امر میں یقین رکھتے ہیں کہ جو کچھ ہوا غلط ہوا  اور اس سے بچا جا سکتا تھا۔ ہم آج نہیں کہہ سکتے کہ کس کا اندازہ صحیح ہے؟ یہ فیصلہ تو صرف تاریخ کرے گی کہ کیا ہم نے دانش مندی اور دوستی کے ساتھ عمل کیا تھا۔‘‘

 (انڈیا ونس فریڈم (آزادی ہند))

شورش کاشمیری اپنی کتاب ’’مولانا ابو الکلام آزاد‘‘ میں رقم طراز ہیں، ’’1857 کی خونخواری کے بعد  1910  میں اسلام کی پہلی آواز جس (ابو الکلام آزاد) نے مسلمانوں کی پلکوں سے نیندیں اتاریں، اور ان کے کانوں کا جھومر بن گئی، ان کے دلوں کا نگينہ اور ان کے دماغوں کا سفینہ ہوگئی۔ لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی دو عظیم ہستیوں میں ایک اقبال تھا جو بے بصرعقیدت کی بھینٹ چڑھ گیا، دوسرا  ابو الکلام تھا جو حصول آزادی کے آخری ایّام میں مسلمانوں کی غضب ناک نفرت کا شکار رہا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی ہر زبان میں اسے گالی دی۔ وہ اردو زبان کا سب سے بڑا خطیب، سب سے بڑا ادیب اور سب سے بڑا سیاستدان تھا۔ لیکن ڈاکٹر ذاکر حسین کے الفاظ میں اردو زبان کی ایسی کوئی گالی نہ تھی جو مسلمانوں نے اپنے اس سب سے بڑے محسن کو نہ دی ہو، وہ گالیاں کھاتا اور دعا دیتا رہا۔‘‘