مولوی خادم حسین اورمیرا ایمان

مہناز اختر

خدا کے سچے متلاشی کی مثال ایسی ہے کہ وہ ایک ایسا مسافر ہے جو ایک قدم پر مؤحد ہوتا ہے اور دوسرے قدم پر ملحد ہوجاتا ہے، پھر مؤحد اور پھر ملحد، یوں تلاش کا یہ سفر جاری رہتا ہے یہاں تک کہ وہ حق کو پالیتا ہے، کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بھٹک جاتے ہیں۔ ہم سب کو روزانہ کی بنیاد پر اپنے ایمان کا احتساب کرنا چاہیے، اسے پرکھنا چاہیے، اس پر کڑی تنقید کرنی چاہیے تاکہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ جسے ہم ایمان سمجھ رہے ہیں آیا وہ علم الیقین کے درجے پر فاٸز ہوسکتا ہے یا پھر وہ صرف ایک دھوکہ ہے جسنے ہمیں صاحب ایمان ہونے کے فریب میں مبتلا کررکھا ہے۔

میں خود ذاتی طور پر اپنے ایمان کا احتساب روزانہ کی بنیاد پر کرتی ہوں۔ بہت اچھا ہوا کہ میری والدہ نے ہمیں قرآن سیکھنے کے لیۓ مدرسہ نہیں بھیجا بلکہ محلے کی ایک بزرگ خاتون کے پاس بٹھایا جو بڑی عقیدت سے بچوں کو قرآن پڑھاتی تھیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میرا اور میرے بھاٸیوں کا ذہن فقہی اختلاف اورغیر ضروری ذکرِ قتال کی وجہ سے اب تک جنگ زدہ نہیں ہوپایا۔ قرآن کے سبق کے بعد ہمیں سیرت اور شماٸل ترمذی پڑھاٸی جاتی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لطف و کرم اور رحم کے واقعات سناۓ جاتے تھے، جیسے طاٸف کا واقعہ، آپکے چچا حضرت حمزہ ؓ کے وحشی قاتلوں کو معاف کرنے کا واقعہ، کچرا پھینکے والی بڑھیا کی عیادت کا واقعہ۔

میرے بچپن کا اسلام اتنا مشکل نہ تھا نہ جانے کیوں ہمیں یہ سکھایا گیا کہ جنت میں جانا بڑا آسان ہے۔ کسی بھوکے کو کھانا کھلا دو پیاسے کو پانی پلا دو، رستہ پر پڑا کانٹا ہٹا دو، زبان کو گالی گلوچ اور فحش گوٸی سے محفوظ رکھو، جھوٹ نہ بولو، والدین اور بزرگوں کا احترام کرو اور خلق خدا کی دل آزاری سے بچو تو اللہ اور اسکے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تم سے راضی ہوجاٸینگے اور جنت تمہارا ٹھکانہ ہوگا۔ آج اگر مڑ کر ماضی میں دیکھوں تو لگتا ہے کہ ہماری والدہ نے ہمارے ساتھ زیادتی کی اور ہمیں اسلام سے انجان رکھا۔ ہم یہ جان نہ پاۓ کہ دراصل اسلام تو وہ ہے جو مولوی خادم حسین بتا رہے ہیں۔ جسکا درس طالبان دیتے آۓ اور اب ”عاشقان“ نے یہ ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ آج معلوم ہوا کہ جنت کا حصول اتنا بھی آسان نہیں جنت تو جنون اور خون کے عوض ملتی ہے۔ مجھے آج یہ اعتراف کرنے میں کوٸی شرم نہیں کہ میرے والدین دین کو سمجھ نہیں پاۓ اور ہمیں ظاہر سے زیادہ باطن سنوارنے کی بلاوجہ کی محنت میں الجھاۓ رکھا۔

میں بچپن میں درسِ سیرت کے دوران خیالوں میں رسول اللہ کے چہرہ پرنور کا خاکہ کھیچنے کی ناکام کوشش کرتی رہتی تھی کہ آخر ہمارے نبی کیسے دکھتے ہونگے مگر ہمیشہ ناکام رہی۔ اسکی ایک نفسیاتی وجہ یہ رہی ہوگی کہ شاید میرے اطراف میں سچے عاشق رسول کی کوٸی مثال موجود نہ تھی اور ہوش سنبھالنے کے بعد یہ سعی کرنے کی جرأت کبھی نہ ہوٸی مگر آج کے بچوں کو ایسی پریشانی کا سامنا نہیں ہوگا کیونکہ انکے سامنے مولوی خادم حسین رضوی جیسے سچے عاشقِ رسول کی مثال موجود ہے۔

میرے والدین کا علم اور ایمان دونوں ہی کمزور تھے تبھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شخصیت کا صحیح خاکہ میرے سامنے کھینچ نہ پاۓ اور ہمیں سکھایا کہ گالیاں بکنے والوں کی دعاٸیں قبول نہیں ہوتی ، انکی زبانیں جلا دی جاتیں ہیں۔ زبان سے گندی بات نکال کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے انکی امّتی بن کر جانے میں شرم نہیں آۓ گی کیا؟ آج عمر کا اتنا بڑا حصّہ گزار لینے کے بعد مولانا خادم حسین رضوی کے طفیل معلوم ہوا کہ مغلظات عین ”سنتِ نبوی “ ہیں۔

میرا ایمان خطرے میں ہے میں نے پرسوں رات سے ہی خصاٸل نبوی پر مبنی شماٸل ترمذی کا ازسرنو مطالعہ شروع کردیا ہے لیکن باوجود مطالعہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شخصیت کا عکس مولوی خادم حسین کے کردار اور شخصیت میں نہیں ڈھونڈ پارہی ہوں۔ میرا ایمان خطرے میں ہے کیونکہ میں آسیہ بی بی پر گستاخی کے الزام کے باوجود بھی اس کے مسٸلے کو انسانی بنیادوں پر دیکھ رہی ہوں۔ میرا ایمان خطرے میں ہے کیونکہ میرا ضمیر بار بار مجھے رحم اور انصاف کی تلقین کررہا ہے۔ میرا ایمان خطرے میں کیونکہ میرا دل کہتا ہے کہ آسیہ بی بی نے اپنی زندگی کے نوسال جیل میں موت اور نفرت کے ساۓ میں گزار دیۓ ، اسکی معصوم بیٹیوں کے چہرے میری آنکھوں کے سامنے آکر مجھ سے سوال کررہے ہیں کہ ”کیا اتنی سزا کافی نہیں؟“ میرا ایمان خطرے میں ہے تبھی تو مولویوں کی بات پر یقین کرنے کے بجاۓ خود سے سوال کررہی ہوں کہ جہاں قانون شہادت میں اتنے جھول پاۓ جاٸیں وہاں آسیہ بی بی کو رہا کرنا عین انصاف نہیں ہے کیا؟

سچ پوچھیں تو اب آسیہ بی بی کی جان کے ساتھ ساتھ مجھے اپنے ایمان کی فکر بھی لاحق ہوگٸی ہے۔ مجھے میرے مضامین کی وجہ سے اکثر دین دار حضرات ”لبرل سیکولر“ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ انہیں یہ بات پریشان کرتی ہے کہ میں انسانیت پر یقین رکھتے ہوۓ کیسے خود کو مسلمان کہہ سکتی ہوں کیونکہ انکے نزدیک اسلام اور انسانیت دو علیحدہ علاقے ہیں۔ انسانیت کا پیروکار کبھی خوشی خوشی خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتا کیونکہ مولویت سے متاثرہ قوم آپکو اچھا مسلمان ماننے سے انکار کردیتی ہے۔ شاید عبدالستار ایدھی اور ڈاکٹر روتھ فاٶ کو عظیم انسان اور اللہ کے نیک بندے تسلیم کرنا ہی مجھے ایمان سے خارج کردیتا ہے کیونکہ جنت ناجاٸز بچوں کو کچرے سے اٹھا کر پالنے یا جذام کے مریضوں کی خدمت سے حاصل نہیں کی جاسکتی بلکہ اسکے لیۓ وہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے جو کبھی طالبان کیا کرتے تھے اور آج عاشقان کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

یہ میری بد قسمتی ہے کہ میں ”مجددِ نیا اسلام“ جناب مولوی خادم حسین رضوی کی شخصیت کے آگے گھٹنے نہیں ٹیک پارہی ہوں ۔ یہ مولانا کا روحانی دبدبہ ہی ہے کہ کیا چیف جسٹس کیا وزراء سب کے سب خود کو اچھا اور سچا مسلمان ثابت کرکے مولانا کے اصحاب میں اپنا نام لکھوانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ مشعل خان کے بہیمانہ قتل اور آسیہ بی بی کے مقدمے نے میرے ایمان کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ یہ میرے ایمان کی کمزوری ہی ہے کہ توہین رسالت پر اشتعال میں آنے کے بجاۓ میں ”ملعونہ“ آسیہ کی رہاٸی اور زندگی کی دعاٸیں کررہی ہوں کیونکہ مجھے آسیہ کے اندر روتی بلکتی مظلوم عورت اور تڑپتی ماں دکھاٸی دے رہی ہے اور چاہ کر بھی میں مولوی خادم حسین رضوی کی شخصیت میں رسول اللہ کی شخصیت کا عکس دیکھنے سے قاصر ہوں۔ دعا ہے کہ خدا جلد از جلد مجھے اس بے ایمانی کی کیفیت سے نکال کر کامل ایمان عطا فرماۓ، آمین۔