مولوی کا دائرہ

مہناز اختر

اگر آپ کے لیے دائرہء اسلام اور مولوی کے دائرے میں فرق کرنا دشوار ہے تو سمجھ لیجیے کے آپ فی الحال مولوی کے دائرے میں موجود ہیں۔ اسلام کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کے اس میں پانچ بڑے مکتبہ ہائے فکر (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور جعفری) دیگر مکتبہء فکر و مسالک اور بیسیوں روحانی سلسلے سمائے ہوئے ہیں اور جیسے جیسے انسانی فکر و شعور کا دائرہ ترقّی کرتا جائے گا  قیاس اور اجتہاد کی لچک سے اسلام کے دائرے کو وسعت ملتی رہے گی۔ مگر اس کے برعکس مولوی کا دائرہ اس کی انا کی طرح تنگ اور پختہ ہوتا ہے، جس میں  اس کے مریدوں کے علاوہ کسی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایسے مولوی حضرات ہر روز ہر لمحہ ہر کسی کو دائرہ اسلام سے خارج کرتے نظر آتے ہیں۔ اسلام کے دائرے میں بابا بلھے شاہ اور مولانا روم جیسی شخصیات نظرآتی ہیں اور دوسرے دائرے میں پائے جانے والے چہروں سے آپ بہ خوبی واقف ہیں۔

سوچنے اور سوال کرنے کا عارضہ مجھے بچپن سے ہی لاحق تھا کچھ سوالوں کے جواب مل جاتے تھے اور کچھ  دماغ میں محفوظ ہوجایا کرتے اور وقتاً فوقتاً اضافی سوالوں کے ساتھ جواب کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے۔ ایک بار چھ  یا سات برس کی عمر میں نانی اماں کے ساتھ  عبداللہ  شاہ غازی کے مزار گئی تھی، قبر شریف کی زیارت کے دوران فاتحہ خوانی کرتے ہوئے نانی اماں نے میری طرف نگاہ ڈالی اور اللہ اللہ پڑھنے اور دعا مانگنے کو کہا۔ فاتحہ خوانی کے بعد میں نے نانی اماں سے پوچھا کے بابا کہاں رہتے ہیں؟ انہوں نے بتایا کے اللہ کے گھر میں رہتے ہیں خیر اسی دوران نہایت عقیدت کے ساتھ انہوں نے لنگر لیا اور ہم گھر آگئے۔ اسی طرح نانی اماں کو ہر وقت اجمیر شریف جانے کی بھی دھن سوار رہتی تھی۔ مجھے کچھ سالوں پہلے داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کی حاضری کی سعادت حاصل ہوئی کیوں کہ کشف المعجوب کا مطالعہ پہلے ہی کرچکی تھی تو عقیدت میں بھی کئی گنا اضافہ ہوچکا تھا، وہاں جاکر احساس ہوا کہ ان بزرگوں کے لطف کرم کا دائرہ کس قدر وسیع ہے کے اس میں اعلیٰ ادنیٰ، ہم مذہب غیرمذہب، عالم جاہل  غرض کہ ہر طبقہ سمایا ہوا ہے۔ وجہ شاید یہ رہی ہو کہ ان بزرگ ہستیوں کے دروازوں پر  ’’فلاں کا داخلہ ممنوع ہے‘‘ کی تختی نہیں ہوتی۔ ان کے لنگر فاقہ کشوں کی عقیدوں کی جانچ پڑتال نہیں کرتے۔

 بچپن کا ایک سوال ’’اب ایسے بابا کیوں نہیں ہوتے؟‘‘ نئے سوال سے تبدل ہو چکا ہے کے ’’مولویوں کے مزار کیوں نہیں ہوتے؟‘‘  جواب سادہ اور آسان ہے کیوں کہ آج کے مولوی کی بیٹھک میں غریب کے لیے دسترخوان نہیں سجتے، آج کے مولوی دوسروں کے مذہب و مسلک کی تفتیش میں لگے رہتے ہیں اور ان کی ڈنڈا بردار فوج خلقِ خدا کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے میں مصروف عمل نظر آتی ہے۔ آج کے مولویوں کے چہرے کرخت اور زبانیں زہر آلود ہیں۔ آج کے مولویوں کے غضب سے ڈر لگتا ہے۔ آج کے مولوی سیاسی اور فسادی ہیں اور آج کے  ڈنڈا بردار مولویوں کے دائرے گھٹن زدہ ہیں، کسی اندھے آسیبی کنوئیں کی طرح جو ہر وقت خون مانگتا ہے۔

خاکے کا ماخذ: اردو کی آخری کتاب، مصنف: ابن انشاء