میرا ایمان سبز و سفید پاکستان
شیزا نذیر
پچھلے دِن ابنِ رُشد کا ایک قول نظروں سے گزرا، ’’جاہلوں پر حکمرانی چاہتے ہوں تو مذہب کا غلاف اوڑھ لو‘‘۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں مذہب دھندے کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ بڑے سے بڑا لبرل بھی کامیابی کے لئے مذہبی کارڈ کھیل جاتا ہے کیونکہ پسماندہ معاشروں میں مذہب کا دھندہ خوب چلتا ہے۔ باخدا میرا یہ کہنے کا مطلب ہرگز نہیں کہ مذہب بُرا ہے لیکن جب ہم انسان کو مذہب کے لئے لازم و ملزم قرار دے دیتے ہیں تو خرابی پیدا ہوتی ہے جو نا قابلِ علاج ناسور بن جاتی ہے۔ خدا نے انسان بنایا اور انسان کے لئے مذہب نہ مذہب کے لئے انسان۔
الیکشن 2018 سے پہلے صورتِ حال یہی نظر آ رہی تھی کہ پاکستانی سمجھ بیٹھے ہیں کہ اللہ پاک نے مذہب کے لئے انسان کو بنایا ہے لیکن ہر بار کی طرح پاکستانی عوام نے اِس بات کو جھٹلا دیا۔ بے شک سیاسی جماعتوں کو مذہبی کارڈ کھیلنا پڑا لیکن مذہبی جماعتوں کی الیکشن میں صورتِ حال پاکستانی عوام کی سیاسی اور مذہبی شعور کا پتا دیتی ہے۔
اِس سب کے باوجود بھی ابھی اِس شعور کی مکمل آگاہی کے لئے کئی منازل طے کرنا باقی ہیں۔ ہم اکثر ہر بات میں اپنا مقابلہ انڈیا کے ساتھ کرتے ہیں۔ پہلے تو انڈیا کہنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا اور ہمارے بڑے ’’ہمسایہ ملک‘‘ کہا کرتے تھے۔ عسکری طور پر تو شاید ہم اِس قابل ہوں کہ مقابلے کا لفظ استعمال کر سکے لیکن ترقی اور شعور کی بہت سی منازل ہیں جن میں ہم اُن سے کئی سال پیچھے ہیں۔ میں انڈیا کی ترقی میں انڈین اقلیتیوں کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں۔ انڈین فلم انڈسٹری کی بات کرتے ہیں۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ اگر بالی ووڈ میں سارے مسلم فنکاروں کا کام نکال دیا جائے تو پچھے بچے گا کیا۔ سب نہیں تو بالی ووڈ خانز (عامر، شاہ رخ، سلمان) کا کام ہی نکال کر دیکھ لیں۔
انڈیا نے اپنی اقلیتیوں کو موقع دیا کہ وہ انڈیا کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں اور صرف فلم انڈسٹری میں ہی مسلم کے علاوہ دیگر اقلیتیوں نے بھی بھر پور کردار ادا کیا۔ آج انڈین فلم انڈسٹری صرف اشیا کی سب سے بڑی اور فلم انڈسٹری بنتی ہے اور ہالی ووڈ کے مقابلے میں کھڑی ہے۔ انڈین فلم اور ٹی وی انڈسٹری میں ہر ایک کو بلا رنگ نسل اور مذہب کی تفریق کئے موقع دیا جاتا ہے۔ اور پھر جو کامیابی وہ لوگ سمیٹتے ہیں وہ انڈیا کے کھاتے میں جاتی ہیں اور انڈیا کا سوفٹ امیج دنیا بھر میں اجاگر ہو تا ہے۔ فلم انڈسٹری کے علاوہ دوسرے شبعوں میں بھی ایسا ہے وہ چاہئے سیاست ہو، کاروبار ہو یا تعلیم، انڈیا کی ترقی میں اقلیتیوں کو حصہ ڈالنے کا موقع دیا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں ایک دہائی سے فلم انڈسٹری ٹھپ پڑی تھی۔ لیکن ٹی وی ڈرامہ انڈسٹری نے خوب کام کیا اور ترقی بھی کی لیکن اقلیتیں کام کرتی ہوئی نظر نہیں آئیں۔ ہاں دو تین سال بعد کوئی ایسا ٹی وی ڈرامہ آ جاتا ہے جس میں پاکستان کی مسیحی اقلیت کو غریب، پسماندہ اور خاکروب یا گھریلو ملازمین کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ اگر اِس سے کچھ بہتر دکھا بھی دیا جائے تو بعد میں اُسے حلقہ اسلام میں داخل کر کے مذہب کی فتح کا جشن منایا جاتا ہے۔ یہ امیج ہم دنیا کو دکھا رہے ہیں کہ ہماری اقلیتیوں کا معیارِ زندگی کیا ہے۔
ہم ایک بار پھر سبز ہلالی پرچم کو لہرانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ لیکن ہر بار کی طرح سبز کے ساتھ سفید رنگ بھول رہے ہیں۔ اگر ہم ملکی ترقی کی مد میں شعور کی اِس منزل کو طے کر لیں کہ ہمارے پرچم میں سفید رنگ بھی ہے جسے چمکنے یا موقع دینے کی ضرورت ہے تو وہ دن دُور نہیں جب ہم صحیح معنوں میں انڈیا کے مقابلے کے لئے کھڑے ہوں گے۔ اقلیتوں کو موقع دیں کہ وہ اپنی خدا داد صلاحتیوں کو پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لئے استعمال کریں۔ پاکستانی اقلیتیں صدیوں سے اِس دھرتی کی مکین ہیں تو پھر دھرتی جائے پرائے کیوں؟
یہی اک پہچان تھی میری ہر پہچان سے پہلے بھی
پاکستان کا شہری تھا میں پاکستان سے پہلے بھی