میرا بھارت مہان
سید فرہاد حسین شاہ
اکثر دیکھا ہے کہ ہمارے کچھ نوزائیدہ دانش ور بات بات میں بھارت کی جمہوریت کا حوالہ تو دیتے ہیں بلکہ کئی دفعہ تو بیشتر حقائق سے اور وہاں کے موجودہ حالات سے صرف نظر کرتے ہوئے انڈیا میں جمہوریت کے قابل فخر تسلسل پر یہاں کے حالات کو کوستے رہتے ہیں۔
لیکن ہندوستان کے بہت سے اندرونی معاملات کا بہ غور جائزہ لینے پر میں یہ نہیں سمجھ پایا کہ نہ جانے یہ کیسی جمہوریت ہے اور نظام کا کیسا تسلسل ہے کہ تمام تر جمہوری دعووں کے باوجود یہ بات تو قریب تیقن سے کہی جاسکتی ہے کہ انڈین الیکٹرانک میڈیا پاکستانی میڈیا سے زیادہ کنٹرولڈ اور شدت پسند ہے، جسے عموماً نیشنلزم یا قوم پرستی کا نام دیا جاتا ہے۔
انڈیا کی قابل فخر جمہوریت نے آج وہاں جو عدم برداشت کا ماحول پیدا کیا ہے، اس سے وہاں کی ایک دو فیصد نہیں بلکہ بیس فیصد مسلم اقلیت خوف و دہشت کا شکار ہے۔ گجرات خون ریزی سے پہلے وہاں سکھوں کا قتل عام ہوچکا ہے اور افسوس کی بات کہ تمام بڑے بڑے تشدد کے واقعات اور بلوے ہمیشہ حکومتی اور سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی سے ہوئے ہیں چاہے مسلمانوں کا قتل عام ہو، سکھوں کے خلاف آپریشن ہو ، عیسائی جلائے جائیں یا نچلی ذات والوں کے گاؤں کے گاؤں تہس نہس کر دیے جائیں۔
یہ سب حکومتی و ریاستی سرپرستی میں ہوتا آرہا ہے۔ انڈیا میں بی جے پی، نریندر مودی ، آر ایس ایس ، سنگھ پریوار کے خلاف بات کی جائے تو آپ کو اسکول کالج اور گھروں میں ’ملک دشمن‘ یا ’بھارت مخالف‘ جیسے القابات سننا پڑتے ہیں۔
بھارت میں ان دنوں مودی سرکار کے دور میں حالت یہ ہے کہ محمد علی جناح کی تعریف کرنے پر بڑے بڑے سیاستدانوں تک کو تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سینماؤں میں ترانے پر غلطی یا کسی مجبوری کے کارن کوئی بیٹھا دکھائی دے دے تو جے ہند کے ٹھیکیداروں کی طرف سے پٹائی تک کا خدشہ موجود ہوتا ہے۔ وہاں کے کامیڈی شوز تک میں بی جے پی اور مودی کے متعلق کچھ طنز و مزاح بھی جاں خطرے میں ڈالنے جیسا ہوتا جا رہا ہے۔
پچاس سے زیادہ عالمی شہرت یافتہ لکھاری، شاعر اور ادب کی دیگر اصناف میں خدمات سر انجام دینے والے مشہور لوگ اسی انتہا پسندی اور اس سے بڑھ کر اس انتہا پسندی کو حکومتی پشت پناہی ملنے کی وجہ سے اپنے سرکاری ایوارڈز واپس کرچکے ہیں لیکن اس جمہوری حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔
مہاراشٹر میں اردو ہندی انگریزی کے بجائے وہاں کی لوکل مہاراشٹری زبان کو پروموٹ کرنے کے لیے شیو سینا تشدد تک سے کام لیتی رہی ہے۔ ساؤتھ انڈیا سے مہاراشٹر آنے والے کئی طالب علموں کو تشدد کرکے وہاں کے کالجز و یونیورسٹیز سے بھگانے یا ہراساں کرنے تک جیسے واقعات دیکھنے میں آ چکے ہیں۔
ہمارے اکثریتی نوزائیدہ دانشور شاید وہاں کی فلم انڈسٹری سے متاثر ہوکر سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے جب کہ ابھی حال ہی میں ایک فینٹیسی کو اپنی فلم کا حصہ بنانے پر ڈائریکٹر پروڈیوسر اور اداکاروں کے ساتھ کیا حشر کیا گیا وہ ساری دنیا نے دیکھا۔
البتہ انڈیا کی معیشت میں بہت مضبوط حصہ رکھنے کی وجہ سے وہاں کی حکومتیں بھی مجبور رہتی ہیں فلم انڈسٹری کو بہت سی چھوٹ دینے پر لیکن بھائی میرے جس طرح ہماری پنجابی و پشتو فلمیں ان علاقوں کا درست عکس نہیں ہیں اسی طرح بولی ووڈ بھی ہندوستان کا پورا سچ نہیں دکھاتی۔
یہ کہنا کہ انڈین ملک سے باہر جا کر اپنے ملک کی سیاست کے خلاف بات نہیں کرتا، اس کی وجہ ملک سے محبت سے زیادہ اپنے ملک کی سیاست سے بیزاری کا عنصر زیادہ غالب ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ نظام کی یکسانیت اور جبر کے حالات نے اسے اس حوالے سے جیسے ’روبوٹ‘‘ بنادیا ہے۔ مرکزی سیاست کے تصور کے مقابلے وہاں علاقائی سیاست کا عنصر غالب ہے۔اب یہ کنٹرولڈ سیاست دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو آخر کار انتہا پسندی کے ایک ایسے گڑھے میں دھکیلتی جارہی ہے کہ اس کا انجام بہرحال بخیر نظر نہیں آتا۔