مینار پاکستان کے قریب موچی گیٹ سے ابلتا گٹر

عاطف توقیر

پشتونوں نے موچی گیٹ لاہور پر احتجاج کا اعلان کیا، تو پہلے تو کئی دن تک گندی سوچوں کے گٹر نما دھانے کھل گئے اور تعفن زدہ باتیں سنائی دینے لگیں، پھر ریاستی کی وہی گندی سوچ پرامن احتجاج کے لیے لاہور پہنچنے والے پی ٹی ایم کے رہنماؤں کی گرفتاری کی صورت میں نظر آئی اور پھر جب یہاں بھی معاملہ نہ رک سکا، تو موچی گیٹ کے قریب اس اجتماع گاہ میں گٹر کے دھانے کھول دیے گئے۔

ستر برس سے اس ریاست سے شہری حقوق کے جواب میں جس قسم کا تعفن اٹھ رہا ہے، اس کی نہ کوئی نظیر ملتی ہے اور نہ ہی مثال۔

اس دیس کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی کسی شخص نے دستوری اور قانون طریقے سے ریاست کے مظالم، اپنی جائز اور قانونی حقوق، حتیٰ کہ بہ طور شہری صرف عزت طلب کی، تو اس کے جواب میں اسے دھتکارہ گیا اور اس وقت تک دھتکارا جاتا رہا، جب تک غصہ، جذبات اور برہمی وہاں تک نہ چلی گئی کہ اس نے ریاست اور وفاق ہی سے نفرت نہ ہو گئی۔

سوال یہ ہے کہ حب الوطنی کیا ہے؟ یہ کسے حق ہے کہ مجھے یہ بتائیے کہ میں محبِ وطن ہوں یا نہیں؟ کیا یہ وردی والے جرنیل ہمیں بتائیں گے کہ ہم اس دیس سے محبت کرتے ہیں یا نہیں؟ یہ لمبی لمبی کاروں والے بتائیں گے کہ زمین سے عشق کیا ہوتا ہے؟ زمین بیچ کر اپنی جیبیں بھرنے والے سیاسی مداری ہمیں مٹی سے پیار سکھائیں گے؟

ریاستی بیانیوں سے اختلاف پر کوئی ریاست جوابی اختلاف تو کر سکتی ہے، یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ فلاں شخص کے مطالبات درست نہیں مگر یہ غدار اور غیرملکی ایجنٹ کی رٹ کہاں سے آ گئی؟

ان جرنیلوں کو ستر سال سے اس قوم کے خون پسینے سے پالنے اور ان کے ٹھاٹھ باٹھ قائم رکھنے کے جواب میں ہماری بندوق، ہماری وردی اور ہمارے ہتھیار ہماری کنپٹیوں پر تان کر ہم سے کہا جاتا ہے، اس دیس سے اس انداز سے محبت کرو، یعنی ہمارے کہے ہوئے پر بالکل ویسا عمل کرو، جیسا ہم کہہ رہے ہیں۔ ہم ہم بھیانک اندھیرے کو دن کہہ دیں، تو دن سمجھ کر ایمان لے آؤ، ہم چڑھتے سورج کو رات کہہ دیں، تو اپنی آنکھیں بند کر کے کہو شب ہو گئی۔

اس جلسے سے صرف ایک روز قبل پنجاب پولیس کے انسدادِ دہشت گردی کے یونٹ نے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں بہ شمول علی وزیر کو حراست میں لے لیا۔ معلوم نہیں کہ انہیں کس الزام کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، مگر بہ قول ان رہنماؤں کے ایک اہلکار نے اپنی بندوق علی وزیر کی کنپٹی پر لگا کر پوری تمکنت کے ساتھ کہا، ’’ہمارے ساتھ چلو‘۔ ان رہنماؤں سے آئی ایس آئی اور ایم آئی کے اہلکاروں نے سخت تفتیش کی، مگر اس تفتیش کا مقصد کیا تھا؟ یہ وہ کیا جاننا چا رہے تھے؟ یا ان کے سر پر کیا کچھ باندھنا چاہتے تھے، یہ کوئی نہیں جانتا۔ لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ کارروائی ٹھیک ویسی ہی تھی، جیسی ستر سال سے اس ملک میں حقوق مانگنے والے ہر تحریک، ہر تنظیم یا ہر رہنما کے ساتھ روا رکھی گئی ہے۔

ایک سوال بہت سادہ سا ہے کہ جرنیلوں کو اس تحریک سے خطرہ کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ جرنیل ہر اس تنظیم، رہنما یا تحریک سے خوف زدہ رہتے ہیں، جس کو عوام کی حمایت حاصل ہو۔ جب تک بھٹو ایوب خان کی ہاں میں ہاں ملائے گا، وہ محبت وطن ہو گا، جس روز اس نے اپنی ڈگر الگ کی، عوام کے اندر جگہ بنائی، بڑے بڑے عوامی اجتماعات فوجی انتظامات کی بجائے اپنے بل بوتے پر کرنا شروع کیے، اس کے لیے زمین تنگ ہوتی چلی گئی۔ نواز شریف کے ساتھ بھی یہی کچھ رہا، جب تک وہ جرنیلوں کی ہاں میں ہاں ملاتا رہا، اس کے لیے سب کچھ آسان تھا، جس روز اس نے اپنی عوامی حمایت کے تناظر میں اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی، ٹائم پورا ہو گیا۔

پشتون تحفظ موومنٹ سے بھی اصل خطرہ جی ایچ کیو کو یہی ہے کہ اس تحریک کی جڑیں عوام میں پیدا کیوں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں مسلم لیگ نون، جسے اس وقت اس تحریک کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہو کر ان ناراض بلکہ برہم نوجوانوں کے دستوری مطالبات کو اعتبار دینا چاہیے تھے، وہ بالکل لاتعلق نظر آئے۔ ان رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد مریم نواز شریف نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے اپنی ہم دردی تو ظاہر کر دی، یا یہ رہنما تو رہا ہو گئے، مگر وفاق اور پنجاب میں حکومت کی حامل مسلم لیگ، وفاقی وزیرداخلہ اور صوبائی وزارت اعلیٰ کے ہوتے ہوئے اس جماعت سے جو عوامی توقعات تھیں، ان میں شاید یہ مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے۔
یہ جلسہ اصل میں لاہور اور مسلم لیگ نون کے لیے ایک لٹمس ٹیسٹ تھا، جس میں لاہور تو کامیاب ہو گیا مگر مسلم لیگ نواز ناکام ہو گئی۔

اگر سکیورٹی اہلکاروں نے وزیراعلیٰ پنجاب کے حکم کے بغیر ان گرفتاریوں کی کوشش کی تھی، تو شہباز شریف، جو عمران خان پر تنقید یا پھبتی کسنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، ایسے میں انہیں سامنے نظر آنا چاہیے تھا اور واضح الفاظ میں کہنا چاہیے تھا کہ ایک جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے یہ سب کچھ برداشت نہیں کیا جائے گا۔

مگر اس سے ایک بات اور بھی واضح ہوتی ہے اور وہ یہ کہ اس تحریک نے کم از کم عسکری اشرافیہ کو پریشان ضرور کیا ہے، جو ایک مرتبہ پھر نہایت اوچھے ہتھکنڈوں، میڈیا پر لفافہ زدہ صحافیوں، زید حامد جیسے چلے ہوئے بلکہ گلے ہوئے کارتوسوں اور سوشل میڈیا ونگ کے ذریعے گالی گلوچ اور ایجنٹ اور غدار والی پوسٹوں کے ساتھ اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح اس کی طاقت نہ ٹوٹے۔
مگر پاکستان کی طاقت کے مرکز سمجھے جانے والے پنجاب اور پنجاب کا دل سمجھے جانے والے لاہور، اور لاہور کا وسط سمجھے جانے والے پرانے لاہور میں کھڑے ہو کر ان پشتون نوجوانوں نے جس واضح الفاظ کے ساتھ اس جی ایچ کیو کو للکارہ ہے، اس کے بعد یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگانا چاہیے کہ یہ تحریک اب پاکستان تحفظ موومنٹ بن چکی ہے۔ اب مسئلہ صرف پشتونوں کے حقوق کا ہی نہیں بلکہ پاکستان کے اقتدارِ اعلیٰ کو ان ستر سے سال نوچنے والی خون آشام چمگادڑوں سے آزاد کرنے کا بھی ہے۔

موچی گیٹ پر اس اجتماع گاہ میں گندا پانی چھوڑا گیا، تو اس جلسے کے لیے وہاں موجود نوجوانوں نے اپنی کوشش اور محنت سے اس کا صفایا کر دیا، مگر ایک پیغام بھی پورے ملک کو دے دیا اور وہ یہ کہ اس ملک سے اب ہر گٹر زدہ سوچ کا خاتمہ بھی ضروری ہے، جو ستر سال سے اس قوم کو زندگی کے ہر ہر شعبے میں فقط بدبودار بنا رہی ہے۔ اس تقریب میں نوجوانوں نے جس انداز سے کھل کر ملک کی تباہی کے ذمہ داراں پر بات کی، اس سے ایک بات طے ہو جاتی ہے کہ بوٹوں کی (یہاں بوٹوں سے مراد وہ جرنیل ہیں، جو ہماری تباہی کے اصل ذمہ دار ہیں) مرمت کے لیے موچی گیٹ سے بہتر کوئی مقام نہیں ہو سکتا تھا۔ اور اس مقام پر جمع ہو کر ان نوجوانوں نے ایک بہتر اور روشن پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے۔

موچی گیٹ مینار پاکستان سے زیادہ فاصلے پر نہیں۔ آج سے کوئی آٹھ دہائیاں قبل اسی منٹوپارک میں برصغیر کے مظلوموں نے ایک قرارداد منظور کر کے طے کیا تھا کہ ہمارا لہو چوسنے والے انگریزوں کو اب اس دھرتی سے بھگایا جائے گا، اور اب آٹھ دہائیاں بعد اس ملک کے پشتونوں اور دیگر برداریوں کے نوجوانوں نے موچی گیٹ پر جمع ہو کر ایک مرتبہ پھر ایک طرح سے ایک قرارداد منظور کی ہے اور وہ یہ کہ اس ملک کو تعفن زدہ کرنے والی اس اشرافیہ کو بھی اس دیس سے بھگانا ہو گا۔ اب کسی نے وردی پہنی ہو یا سویلین لباس، جو جو اس دھرتی کا دستور توڑے گا، جو جو اس مٹی کو بیچے گا، اس کے لیے اس قوم کے پاس معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی۔ اب اس تعفن اور بدبو کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ پاکستان ہمیشہ اور واقعی زندہ باد ہو۔