ناکامیوں سے بھرپور زندگی کے بعد ارب پتی

غیور شاہ ترمذی

صرف 5 سال کی عمر میں اس کا باپ مر گیا اور غربت کی وجہ سے اسے 16 سال کی عمر میں سکول چھوڑنا پڑا کیونکہ مفت تعلیم کے باوجود بھی وہ اپنی خوراک, رہائیش وغیرہ کے اخراجات افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔

اگلے ایک سال کے دوران اسے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئیے 4 نوکریاں کرنی اور چھوڑنی پڑیں۔ اوپر سے 18 سال کی عمر میں ہی اس کی شادی ہو گئی۔ جبکہ اگلے 4 سال کے دوران فیملی کا بوجھ اٹھانے کے لئیے اس نے بہت شعبوں میں کیرئیر بنانے کی کوشش کی۔ جیسا کہ:

1):- لوکل ریلوے کنڈکٹر کی نوکری کی مگر اس میں بھی کامیاب نہ ہو سکا۔
2):- اس نے ملٹری میں بھی کیرئیر بنانے کی کوشش کی مگر وہاں سے بھی اسے نکال دیا گیا۔
3):- اس نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کی مگر وہاں بھی اسے مسترد کر دیا گیا۔
4):- آخر کار اس نے انشورنس ایجنٹ بننے کا فیصلہ کیا مگر وہاں بھی ناکامی نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔

جس دوران وہ یہ سب کوششیں کر رہا تھا اسی دوران ہی وہ 19 سال کی عمر میں ایک بیٹی کا باپ بن گیا مگر اس کی بدنصیبی دیکھیں کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار پایا کیونکہ جب وہ 20 سال کی عمر تک پہنچا تو اس کی بیوی اپنی بیٹی کو لے کر اس کی زندگی ویران کر گئی۔

اس دوران ایک چھوٹے سے ڈھابہ ہوٹل میں اس نے باورچی اور برتن دھونے کی نوکری بھی کر لی۔ اپنی بیٹی کی محبت میں بےقرار ہو کر اس نے اسے اغواء کرنے کی ناکام کوشش بھی کی اور ناکامی پر جوتیاں کھانی پڑیں۔

ان ساری مشکلات اور مصیبتوں کے درمیان صرف ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ اس کی بیوی نے اس کی زندگی میں صرف ایک شرط پر واپس آنے کی حامی بھری کہ وہ ڈھابہ ریسٹورانٹ کی باورچی اور برتن دھونے والی نوکری کبھی نہیں چھوڑے گا۔ اپنی بیٹی کی محبت کے لئے اس نے یہ بھی قبول کر لیا اور 22 سال کی عمر سے لے کر 65 سال کی عمر میں اپنی ریٹائرمنٹ تک اس نے یہی باورچی اور برتن دھونے والی نوکری ڈھابہ ہوٹلوں میں ہی کی۔ اس میں بھی کبھی اسے کام ملتا تھا اور کبھی یہ ڈھابہ ہوٹل بند ہو جاتے تھے پھر وہ نئے ڈھابہ ہوٹل کھلنے تک بےروزگار رہتا۔

اپنی ریٹائرمنٹ کے پہلے دن 43 سال کی لمبی نوکری کے بعد گورنمنٹ نے اسے صرف 105 ڈالرز کا سوشل سیکورٹی چیک دیا کیونکہ وہ اپنی نوکری کے دوران بنکوں سے, سوشل سیکورٹی سے اور لیزنگ کمپنیوں سے قرضہ لیتا رہا۔ لہذا گورنمنٹ نے اس کے سارے واجب الادا قرضوں کی رقم منہا کرکے اسے صرف 105 ڈالرز ہی عنایت کئے۔ اتنی معمولی رقم کا چیک ہاتھ میں پکڑے وہ دریا کنارے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر وہ خود کو خودکشی کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار کرنے لگا۔ اس نے ایک کاغذ, قلم لیا اور لکھنا شروع کیا کہ اس نے اپنی زندگی میں کیا کیا ناکامیاں دیکھی ہیں۔ جب ساری ناکامیاں لکھ چکا تو اس نے محسوس کیا کہ ساری ناکامیوں کے باوجود بھی صرف ایک کام ایسا ہے جو اس نے بہت اچھے انداز میں سر انجام دیا۔ اور وہ تھا کھانے پکانے کا کام۔

خصوصا” ان ڈھابہ ہوٹلوں میں اس کے بنائے فرائیڈ چکن کی بہت دھوم تھی اور اس کی اس مہارت کی وجہ سے اسے ڈھابہ ہوٹلوں میں نوکری بھی مل جاتی تھی۔

کرنل کو اس خیال کا آنا تھا کہ اس نے اپنے 105 ڈالرز کے چیک کو ایک دوست کے پاس گروی رکھ کر اس سے 87 ڈالرز نقد لئے اور بازار سے جا کر کھانا پکانے کا سامان, چکن اور مصالحے خرید لایا۔ اپنی خفیہ ترکیب اور مصالحوں کے استعمال سے اس نے سارا چکن فرائی کر ڈالا جو کہ تقریبا” 40 کلو سے بھی زیادہ تھا اور اسے ٹوکریوں میں رکھ رکھ کر اپنے ہمسایوں, فیکٹری مزدوروں, سکولوں, کالجوں, ہسپتالوں, پارکوں, بس سٹیشنوں میں جا کر فروخت کرنے لے گیا۔ اس کا تیار کیا ہوا فرائیڈ چکن اتنا پسند کیا گیا کہ سارا چکن فروخت کرکے اس نے پہلے دن ہی دوست کے دئیے 87 ڈالرز بمعہ منافع کے اسے واپس کر دئیے اور اگلے دن کا چکن بھی خرید لیا۔ بس اس دن کے بعد اس نے ناکامی کا منہ کبھی دوبارہ نہیں دیکھا۔

یاد رہے کہ 65 سال کی عمر میں وہ ایک ناکام, نامعلوم شخص کے طور پر خود کشی کرنے جا رہا تھا جبکہ 88 سال کی عمر میں وہ درجنوں ارب ڈالرز مالیت کی کنٹیکی فرائیڈ چکن (KFC) فوڈ چین کے مالک کرنل سینڈرز کے نام سے پوری دنیا میں مشہور ہو چکا تھا۔ جیسے ہی اس کے فرائیڈ چکن نے مشہوری پکڑی تو اس کا نام کرنل فرائیڈ چکن رکھنے کی تجویز آئی کیونکہ وہ اپنی جوانی کے ایام میں آرمی میں بھرتی کے لئیے کچھ عرصہ ان کے ٹریننگ کیمپس پر گزار چکا تھا اس لئیے اس کے ڈھابہ والے دوست مذاق میں اسے کرنل پکارتے تھے۔ مگر ایک ٹرک ڈرائیور کی تجویز پر اس وقت اس چکن کو کنٹیکی فرائیڈ چکن کا نام دیا گیا جب اس نے یہ بتایا کہ ٹرک ڈرائیورز جب کنٹیکی سے گزرتے ہوئے یہ فرائیڈ چکن کھاتے ہیں تو دوسروں کو اس کے بارے بتاتے ہیں کہ کنٹیکی میں دنیا کا سب سے مزےدار فرائیڈ چکن ملتا ہے۔ یوں کنٹیکی فرائیڈ چکن عرف کے ایف سی پوری دنیا میں چھاتا چلا گیا۔

اسے کہتے ہیں انسپیریشن۔ یاد رکھیں کہ اگر آپ مسلسل محنت پر یقین رکھتے ہیں اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں تو قسمت آپ کی زندگی ضرور بدلے گی۔ جلد یا بدیر آپ کو اس کا صلہ ضرور ملے گا۔ کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے اور یہ زینہ بہ زینہ چڑھ کر ہی صرف ان لوگوں کو ملتی یے جو ناکامیوں سے نہیں گبھراتے اور مسلسل محنت پر یقین رکھتے ییں۔