نریندرمودی نے جو کہا وہ کردکھایا

مہناز اختر

کیا آپ کو یاد ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ستمبر 2016 میں کیرالہ میں ایک ریلی سے خطاب کے دوران کہا تھا “ہم پاکستان کو تنہا کردیں گے اور میں اس مقصد کے حصول کے لیۓ کام کررہا ہوں”  تب پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف تھے۔

اور کیا آپ کو یاد ہے کہ فروری 2019 میں تری پورہ میں جلسے سے خطاب کے دوران  بھارتی وزیراعظم نریندرمودی  نے پھر پاکستان کو للکارتے ہوۓ کہا تھا  “بھارت پاکستان کو عالمی سطح پر مکمل تنہا کردے گا”  اس وقت سے اب تک پاکستانی وزیراعظم عمران خان ہیں۔  اگریاد نہیں ہے تو  “اب پچھتاۓ کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت”  کیونکہ بھارت نے آپ کو عالمی سطح پر بالکل تنہا کردیا ہے۔ اب عالمی دنیا کی تو خیر ہے مسلم دنیا میں بھی پاکستان تنہا کھڑا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے اپنا ہدف پورا کرلیا ہے۔ اس کا ثبوت متحدہ عرب امارات میں بھارتی وزیراعظم کا شاندار استقبال،  سب سے بڑے ایوارڈ سے نوازا جانا اور دو طرفہ کامیاب تجارتی معاہدے ہیں۔ عرب مسلم دنیا سے  ہماری دوستی کی بنیاد چاکری ہے اور بھارت اور عرب دنیا کی دوستی کی بنیاد برابری ہے لہذا فرق تو نظر آۓ گا۔

 دیکھا جاۓ تو بحیثیت ریاست ہمارے پاس اپنے پڑوسی ملک پر برتری حاصل کرنے کے لیۓ کوئی پوائنٹ نہیں بچا ہے۔  ہم بے شرمی سے شکست خوردگی میں خود احتسابی کے بجاۓ بھارت کو بدعائیں دینے اور لعنت بھیجنے میں زیادہ دلچسپی دکھا رہے ہیں۔ خیر سے کیوں نہ دلچسپی دِکھائیں جب ہمارے حواسوں پر آسمانی امداد اور غزوہ ہند میں فتح یابی کی بشارتوں والی پٹی اس قدر مضبوطی سے باندھی گئی ہو۔ اب بھلے سے بھارت  انفارمیشن اور  اسپیس ٹیکنالوجی میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ کھڑا ہے ہم غزوہ ہند میں کامیابی کی بشارت پر خوش ہورہے ہیں کہ چلو خیر ہے کامیاب تو آخرکار ہم نے ہی ہونا ہے۔ بے شک آپ اپنی سادہ لوح عوام کو یہ نہ بتائیے کہ بھارت اس وقت تعلیم ، ٹیکنالوجی اور معاشی ترقی کے سارے انڈیکسوں میں اوپر کی طرف جارہا ہے۔ بس اپنی  عوام کو میڈیا پراپگینڈا ٹول کی مدد سے یہ بتا کر احمقوں کی جنت میں بٹھائے رکھیے کہ “گاۓ کا پیشاب پینے والی بت پرست قوم” پر ہم عنقریب جہاد کی مدد سے فتح پالیں گے۔  تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا جہاد کی تیاری حافظ سعید کی امامت میں ہوگی یا ہم نئے اور اچھے طالبان کی دوبارہ بھرتی کرنے والے ہیں؟

اس وقت ہمارے پاس بھارت کو زیر کرنے کے لیۓ بس دو ہی کھوٹے سکے ہیں ایک کشمیر اور دوسرا جہاد، ہمارا کشمیر والا کھوٹا سکہ کبھی اتنی خوبی سے نہ چلتا اگر بھارتی حکومت کشمیر کو اسپیشل اسٹیٹس دینے والے چند آرٹیکلز خود ہی نہ ہٹاتی۔  یہ سکہ اب مزید مارکیٹ میں  چلنے والا نہیں ہے کیونکہ بھارتی وزیراعظم نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ہاتھ تھپتھپاتے ہوۓ کہہ دیا ہے کہ “یار! کشمیر بھارت اور پاکستان کا باہمی معاملہ ہے، ہم حل کرلیں گے” بالکل ایسے جیسے میاں بیوی کی ہلکی پھلکی لڑائی کی آوازیں سن کر پڑوسی دروازہ کھٹکھٹاۓ تو میاں نکل کر کہتا ہے  “یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے” پھر پڑوسی  نامراد  ہوکر لوٹ جاتے ہیں۔ مان جائیے کہ آپ کا چیخنا چلانا کام نہیں آیا۔ اب چاہے پورے دن کا  مون ورت رکھیے یا دو منٹ کی خاموشی اختیار کیجیے، سائرن بجائیے یا توپ داغیے بھارت کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگنے والی۔ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کووہی خجالت اٹھانی پڑی ہے جو مہوش حیات اور ارمینہ خان کو پریانکا چوپڑا کے معاملے میں اٹھانی پڑی۔  بات ساکھ کی ہے اور ان دونوں پاکستانی اداکاراؤں کی ساکھ پریانکا چوپڑا کے مقابلے میں وہی ہے جو پاکستان کی بھارت کے مقابلے میں ہے۔

پاکستان بحیثیت ریاست کشمیریوں اور پاکستانیوں کو فریب دے رہا ہے اور بھارت جانتا ہے کہ گرجنے والے برستے نہیں ہیں۔ کشمیر کی سول سوسائٹی یا بھارت کے غیرجانبدار طبقے سے آپ کا ایسا کوئی رابطہ یا ہم آہنگی نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر آپ کم از کم کوئی عالمی کانفرنس ہمارے پرانے آقاؤں کے دیس یعنی برطانیہ میں کرواسکیں۔ برطانوی سامراجی دور کی پالیسیاں آج تک برما میں روہنگیا مسلمان، آسام میں بنگالی مسلمان اور دونوں جانب کے کشمیری مسلمان بھگت رہے ہیں لیکن شرما شرمی میں بھی برطانیہ نے اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوۓ اس معاملے میں ثالثی کی کوئی پیشکش نہیں کی پھر اتنی بڑی تعداد میں کشمیریوں کا برطانیہ سمیت پورے یورپ میں ہونے کا کیا فائدہ؟ یا یہ کہیے کہ جہادی طرز فکر سے دور ایک آزاد اور غیرجانبدار کشمیری بھی یہی چاہتا ہے کہ یہ معاملہ کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق سیاسی طریقے سے طے پاۓ نہ کہ پاکستانیوں کی خواہش کے مطابق جہادی طریقے سے۔ پورے ہندوستان سے کشمیریوں کے حق میں آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں ہیں  لیکن زعفرانی ہندو فسطائیت کے آگے ان کی آوازیں فی الحال نقار خانے میں طوطی کی آواز جیسی ہے۔

پاکستان کو کشمیر کے معاملے میں قدم قدم پر خجالت اٹھانی پڑرہی ہے گزشتہ دنوں راہول گاندھی کو کشمیر جانے سے روکا گیا تو پاکستان  میں راہول گاندھی کے ہمدرد پیدا ہوگۓ لیکن شرمندگی تب ہوئی جب راہول گاندھی نے کشمیر کے حالات کا ذمہ دار پاکستان کو  ٹھرایا۔ راہول گاندھی نے بدھ کو کہا کہ وہ کئی مدعوں پر نریندر مودی حکومت سے متفق نہیں ہیں، لیکن یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جموں و کشمیر ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے  اور پاکستان یا کسی دیگر ملک کے لئے اس میں دخل دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جموں و کشمیر میں تشدد ہے اور یہ پاکستان کے بھڑکانے کی وجہ سے ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے حمایتی کے طور پر پوری دنیا میں پہچانا جاتا ہے۔  کانگریسی ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے کہا، “دنیا میں کسی کو بھی اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ جموں ، کشمیر اور لداخ ہندوستان کے اٹوٹ حصے تھے ، ہیں اور ہمیشہ رہیں گے… پاکستان کتنی بھی کینہ پرور ترکیبیں اپنا لے ، جھٹلائی نہ جا سکنے والی اس سچائی کو بدلا نہیں جاسکے گا “

پاکستان میں ایک جانب جہادی فیکٹریاں اسلحوں سے زنگ اتارنے میں مصروف ہیں اور دوسری جانب شیخ رشید نومبر دسمبر میں بھارت پاکستان میں جنگ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ لگتا ہے ہم نے افغان جنگ اور جنرل ضیاء کی جہادی فیکٹری کے پیدا کردہ سانحات اور اب تک بھگتنے والے نقصانات سے کوئی سبق نہیں سیکھا لیکن بھارت محتاط ہے اور ہوشیار بھی اس نے بھارتی ریاست گجرات میں خفیہ اطلاعات کے بعد سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی ہے۔ بھارتی ذرائعے کے مطابق  پاکستانی کمانڈوز گجرات میں ممکنہ طور پر کوئی حملہ کر سکتے ہیں یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر تشدد کے واقعات شروع کرواسکتے ہیں۔ بھارت اس وقت جنگ میں جاۓ بغیر صرف عالمی دباؤ کی مدد سے پاکستان پر فتح حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ہمیں مان لینا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہمارے پاس سواۓ غزوہ ہند سے متعلق چند احادیث کے کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہے۔ ہماری خارجہ پالیسیاں جنگجو اور جہادی تیار کرتے ہیں۔ ہندوستان میں سیاسی دماغ خارجہ اور دفاعی پالیسیاں بناتا ہے اور وردی والے کا کام  صرف حکم بجا لانا ہے۔ آج نریندرمودی پوری شان سے دنیا بھر کے کامیاب دورے اس لیۓ کررہا ہے کہ بھارتی فوج کے سربراہان اس کی پشت پر موجود ہیں اور ہم آج پوری دنیا میں صرف اس لیۓ بدنام ہیں کیونکہ ہمارے فوجی ترجمان کو پریس کانفرنسوں اور  بھارتی اداکاروں کے ساتھ ٹوئیٹر پر گلی ڈنڈے کھیلنے کا شوق ہے۔  پتا نہیں ہمارا یہ جہادی جنون کشمیر تا کراچی اور کراچی تا خیبر کتنے انسانی جانوں کی مزید قربانی لے گا اور پتا نہیں وہ وقت کب آۓ گا جب ہم یہ بات سمجھ جائیں گے کہ آج کل جنگیں  ہتھیاروں سے نہیں معاشی اور سفارتی پالیسیوں کی مدد سے لڑی جاتیں ہیں۔ اب تو بس  کشمیراور پاکستان کا اللہ نگہبان کیونکہ آثار اچھے نظر نہیں آرہے ہیں۔