نسیم حجازی سے ارتغرل غازی تک – ایک حقیقت سو افسانے

 وقار احمد صدیقی

گزشتہ دنوں ڈرامہ سیریل ارتغرل کی سرکاری ٹی وی چینل سے اردو ڈبنگ کے ساتھ ٹیلی کاسٹ نے پہلے سے منقسم پاکستانی معاشرے میں ایک نئی بحث کو جنم دے دیا۔ توقع کے عین مطابق بحث نے وہ رخ اختیار کیا جہاں مذکورہ ڈرامے کو نشر کیئے جانے کی حمایت و مخالفت، کسی فرد کے مذہب پسند یا لبرل و سیکولر ہونے کی کسوٹی طے پا گئی۔ گزشتہ تین سے چار عشروں میں جن خطوط پر قوم کی ذہن سازی کی گئی ہے، اب اہل وطن کسی سادہ سے سماجی و معاشرتی مسئلے کو مذہب سے علیحدہ رکھ کر پرکھنے اور جانچنے سے قاصر ہو چکے ہیں۔ عورت مارچ سے لے کر دفاعی بجٹ اور آئین کی بالادستی سے لے کر حالیہ کورونا کی وباء تک، ہر معاملے کو جب تک گھسیٹ گھسیٹ کر مذہب کے  فریم میں فٹ کر کے نہ جانچ لیں، ہماری تشفی نہیں ہو پاتی۔ ایک طبقے کا اصرار ہے کہ جب ‘گیم آف تھرونز’ دیکھ کر معاشرتی اقدار زیر و زبر نہی‍ں ہوئیں تو ‘ارتغرل غازی’ سے کیا بھونچال متوقع ہے؟ بات کسی حد تک درست بھی ہو سکتی ہے لیکن ایک بنیادی فرق، جسے بہرکیف پیشِ نظر رکھا جانا چاہیے، یہ کہ اول الذکر سیریل دیکھنے والا طبقہ اسے فکشن سمجھ کر دیکھ رہا تھا جبکہ آخر الذکر سیریل کے ناطرین ڈرامے کو ایک حقیقت جان کر دیکھ رہے ہیں۔

ایک طبقے کا دعوی ہے کہ مذکورہ سیریل کے ذریعے ترکی اپنی عوام میں خلافت اور جذبۂ جہاد کو زندہ کر رہا ہے۔ چلیے ایک لمحے کو مان لیا کہ مذکورہ سیریل کی ٹیلی کاسٹ سے ترکی کی عرض و غایت وہی ہے جو آپ بیان فرما رہے ہیں پر سوال یہ  ہے کہ پاکستانی معاشرے کے لیئے مذکورہ ہدف اور مقصد کتنا موزوں ہے؟ کیا ہمارے معاشرے میں جہادی سوچ و فکر کی کچھ قلت ہے کہ ہمیں اس کی دوبارہ آبیاری کی حاجت محسوس ہو رہی ہے؟ ہمارا معاشرہ تو تاحال اس جہادی اور مذہبی شدت پسندی کے تباہ کن اثرات سے نبرد آزما ہے جس راہ پر اسے گزشتہ چار دہائیوں سے ڈال دیا گیا ہے۔

راقم جس نسل سے تعلق رکھتا ہے وہ نسیم حجازی کے تحریر کردہ ناولو‍ں می‍ں اپنے عرب بھائیوں کی جنگی فتوحات کے قصے پڑھتے جوان ہوئی ہے۔ راقم کو یاد ہے کہ وہ کس طرح ہفتے کے اس مخصوص دن کا انتظار کرتا تھا جس روز پی ٹی وی سے نشر ہونے والے ڈرامہ سیریل ‘شاہین’ میں بدر بن مغیرہ تلوارزنی کے جوہر دکھلاتا جلوہ افروز ہوتا تھا۔ مذکورہ دور وہ تھا جب ہمارے حکمران، قوم کی رضامندی لیئے بغیر اس کا اندراج سعودی کیمپ میں کروا چکے تھے۔ چالیس سالہ طویل رومانس می‍ں جب معاشرے کا سماجی پیراہن تار تار ہو گیا، ایک تحمل مزاج معاشرے میں زہرِ قاتل، شدت و انتہا پسندی در آئی اور ہم نے مشاہدہ کر لیا کہ عربوں کے معاشی و سفارتی مفادات ہم سے زیادہ بھارت اور نریندر مودی سے وابستہ ہو چکے ہیں تو ہم نے پٹری بدل کر قوم کو ترک کیمپ میں رجسٹر کرانے کا فیصلہ کر لیا۔ آج سے ارتغرل غازی کو داد شجاعت دیتے ملاحظہ فرمائیے کہ خدا خدا کر کے عربوں سے فاصلہ کرنا شروع کیا ہے تو ہمارے ہم ترک کیمپ میں گھسنے کےلیئے اتاؤلے دکھائی دے رہے ہیں۔

مذکورہ ڈرامہ اگر ملی خودداری ہی سکھاتا ہے تو اس کے توسط سے قوم کو اس غریب کی ذہنی کیفیت سے نکالنے کی سعی فرمائیے جس میں مبتلا فرد خود کچھ کرنے کے بجائے ہر وقت سماجی و معاشی حیثیت میں برتر اور بااثر رشتے داروں سے زبردستی تعلق جوڑ کر باعزت ہونے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ برسبیلِ تذکرہ قارئین سے عرض کروں کہ لاک ڈاون کے نفاذ سے قبل راقم اپنے 7 سالہ بچے کے مطالعے کی خاطر شیلفیڈ لائیبری سے ‘مائیلز پبلیکیشنز’ کی ایک کتاب بعنوان “گریٹ سائنٹسٹس”  ایشو کروا کر لایا۔ مذکورہ کتاب کا ہر تیسرا ورق مسلمان سائنسدانو‍ں کی علمی و سائنسی خدمات سے پُر ہے۔ علمِ طب کا آغاز بو علی سینا کے تذکرے سے ہوتا ہے، الجبرا و ٹرگنومیٹری کی تمہید بالترتیب الخوازمی و نصیر الدین الطوسی کے حوالوں سے باندھی جاتی ہے۔ لفظ کیمسٹری اور جابر بن حیان ایک دوسرے سے نتھی دکھائی دیتے ہیں۔ محمد ابن موسی، ابن الہیثم، البیرونی، عمر خیام، ابو الحسن الاقلیدیسی، ابو الوفا وغیرہ وغیرہ ، ایک قطار ہے مسلمان سائنسدانو‍ں کی ،کہ جن کی علمی و سائنسی خدمات یہ قوم پوری تاریخی و پیشہ ورانہ دیانت کے ساتھ اپنی نسل کو پڑھا رہی ہے۔ سوال یہ کہ کیا مسلمانوں کی عظمت رفتہ اور فتوحات کا واحد حوالہ میدانِ جنگ ہی ہے؟ ہمارے اسلاف کی عملی و سائنسی کوئی ایسی خدمات نہیں ہیں جن سے ہماری نئی نسل کی آگاہی اہمیت رکھتی ہو؟

ارباب اختیار قوم کو مذکورہ ترک سیریل ضرور دکھائیں لیکن ممکن ہو سکے تو اس نسل کو مسلمانوں کی جنگی میدانوں کے ساتھ ساتھ، علمی و سائنسی محاذوں پر عظمت رفتہ کے قصوں پر مبنی کوئی سیریل بھی دکھا دیجئے۔ کیونکہ دورِ حاضر میں گھوڑے اور تلواروں سے تو آپ محاذِ جنگ بھی نہیں جیت سکتے. اور اگر اپنے جذبۂ ایمانی پر ایسا ہی اعتماد ہے اور ارتغرل دیکھ کر غیرتِ جہاد جاگ گئی ہے تو جمعہ کے جمعہ یوگ آسن چھوڑ کر، برابر میں کشمیر بزور تلوار آزاد کرا لیجئے۔ ایک کروڑ کشمیریوں کی نظریں آج بھی آپ ہی کو تک رہی ہیں۔