نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کا اتنا دکھ؟

عاطف توقیر

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں اور وہاں قریب پچاس افراد کی ہلاکت اور درجنوں زخمیوں نے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں ایک سکتہ پیدا کر دیا۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے تمام ٹی وی چینلز میں تقریباﹰ تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے کھلے اور واضح لفظوں میں اس حملے کی مذمت کی اور اگر کسی نے اس سلسلے میں پیش و پس سے کام لیا، تو اس پر بھی شدید تنقید کی گئی۔

ہمارے ہاں تاہم اس واقعے پر دکھ اور مذمت کا سلسلہ اچانک ایک مہم کی شکل میں دکھائی دیا۔ ہم جو بلوچستان میں مسخ لاشوں پر کبھی نہیں بولے۔ وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں بارودی سرنگوں سے زخمی ہونے والوں کا دکھ کبھی محسوس نہیں کیا، اپنے ہاں لاپتا افراد پر ہمیں کبھی افسوس نہ ہوا، اچانک جیسے ’انسانیت‘ کے دکھ سے سرشار ہو گئے۔

صرف ایک ہفتہ قبل صومالیہ میں الشباب کے دہشت گردوں نے ایک ہوٹل میں گھس کر وہاں کئی افراد کو ہلاک کر دیا، مگر ہمارے میڈیا پر تو خیر خبر کیا چلتی، سوشل میڈیا پر بھی کسی نے ایک جملہ نہ لکھا۔

سوال یہ ہے کہ نیوزی لینڈ کے واقعے کا اتنا دکھ ہم نے کیسے محسوس کر لیا؟ ہم تو سڑک پر مرتے لوگوں کی ویڈیوز بنانے والے لوگ ہیں۔ ہم تو مشعال خان کو یونیورسٹی کے ہوسٹل میں ڈنڈے مار مار کر ہلاک کرنے کے بعد بھی جشن منانے والے ہیں۔

ہمارے ہاں لعل شہباز قلندر کے مزار پر خودکش بمبار نے تباہی مچائی، تو ٹی وی پر دہشت گردی کی مذمت کی بجائے، اس بات پر بحث ہو رہی تھی کہ درگاہوں پر ’مشرکانہ حرکات‘ ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں مساجد، امام بارگاہوں کو خون سے نہلایا گیا، تو ٹی وی پر بیٹھ کر مذمت کی بجائے اگر مگر ہو رہی تھی۔ ہمارے ہاں مسیحی بستیوں اور ہندو مندروں کو خاکستر کیا گیا، تو سوشل میڈیا پر نعرے لگائے جا رہے تھے کہ یہ توہین مذہب کے مرتکب تھے اور ان کے ساتھ یہ سلوک ٹھیک ہوا۔

یہ اچانک ہماری انسانیت کیسے جاگ گئی کہ تمام لوگ اس واقعے کو ’دہشت گردانہ‘ قرار نہ دینے پر بھی برہم ہو گئے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اس طرح ایک تیر سے دو شکار کیے گئے ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ اس واقعے میں نسل پرست دہشت گرد کو بنیاد بنا کر اپنے خون آلود ہاتھوں کو چھپانے کا کام سرانجام دیا گیا ہے اور دوسرا یہ کہ اس واقعے کا ذمہ داری پورے مغرب کو قرار دے کر اس سے غیرمسلموں کے خلاف مزید نفرت پیدا کی جائے۔

یہ مذمت درحقیقت اسی روش کا حصہ ہے، جس میں ہمیں ہر وہ دکھ بھرپور اور بھاری دکھائی دیتا ہے، جس میں قاتل مسلمان نہ ہو بلکہ غیرمسلم ہو۔ اگر یہی قتل کسی مسلمان نے کیا ہوتا، تو میڈیا اور سوشل میڈیا پر اگر مگر کا طوفان ہوتا۔

شام میں پانچ لاکھ سے زائد انسان قتل ہو گئے، کئی ملین بے گھر ہو گئے، بچوں سے اسکول چھن گئے، خواتین سے شوہر چھین گئے، بہن بھائی ایک دوسرے سے جدا ہو گئے، مگر آپ نے اس پر کتنی مرتبہ مذمتی پوسٹس دیکھیں؟ کتنے ٹی وی مذاکروں میں سنجیدہ انداز سے اس موضوع پر گفت گو ہوئی؟

عراق میں امریکی مداخلت اور وہاں انسانوں کی ہلاکتوں پر مذمتی جملے آپ نے بہت سنے ہوں گے، مگر آپ نے داعش کے ہاتھوں موصل کی بستیوں میں بکتی بچیوں اور زنجیروں سے جکڑ کر غلام بنا کر فروخت کیے جانے والے بچوں کی بابت کتنی مذمت دیکھی؟

ایران اور سعودی عرب کی اثرورسوخ کی لڑائی میں پورے یمن کی بربادی پر آپ نے کتنے افراد کو آنسو بہاتے دیکھا؟ حکومت کی جانب سے کتنے مذمتی بیانات سامنے آئے؟

فلسطین کا دکھ تو ہم نے محسوس کیا، برما اور کشمیر کے آنسو بھی ہماری آنکھوں سے ٹپکے، مگر ترک طیاروں کی بمباری میں مرنے والے کردوں کے لیے ہم نے کتنی دعا کی؟

نائجیریا میں بوکوحرام کے ہاتھوں اغوا کی گئی سینکڑوں بچیوں اور پھر انہیں خودکش جیکٹیں پہنا کر بازوں اور گرجاگھروں کو تباہ کرنے کے واقعات پر ہم نے کتنی مذمت کی؟ الشباب نے پورا صومالیہ تباہ کر دیا، ہم نے کتنے واضح الفاظ میں اس دہشت گردی کو دہشت گردی کہا؟

ایک جملہ مجھے ابھی سوشل میڈیا پر دکھائی دیا کہ برما میں مجھے مارا جا رہا ہے، کشمیر میں مجھے مارا جا رہا ہے، فلسطین میں مجھے مارا جا رہا ہے، مگر میں چوں کہ مسلمان ہوں، اس لیے دہشت گرد بھی میں ہی ہوں۔

یہ جملہ سننے میں تو بڑا اچھا لگ رہا ہے، مگر اس سے ایک قدم آگے کا سوال یہ ہے کہ کہیں ہمیں دہشت گرد سمجھے جانے کی ایک وجہ یہ تو نہیں کہ وہ تمام مقامات جہاں ظلم اور جبر ایک غیرمسلم کے ہاتھوں ہو رہا ہے، ہمیں دکھ محسوس ہو رہا ہے، مگر ویسا ہی بلکہ اس سے زیادہ بھیانک ظلم جب کسی مسلمان کے ہاتھوں ہو رہا ہے، تو وہاں ہمیں نہ ملال ہے نہ افسوس۔

وہاں ہم خود تو خیر کیا مذمت کریں گے، کوئی دوسرا بھی مذمت کرتا ہوا ملے، تو ہم فوراﹰ کسی دوسرے علاقے کی تباہی، کسی دوسرے بھیانک منظر کی مثال لا کر اس ظلم کو جائز قرار دینے کے مشن پر ہوتے ہیں۔

سوال یہ بھی ہے کہ کہیں ہمارے بارے میں دنیا کے دیگر مذاہب کے لوگوں کی رائے کی وجہ یہ تو نہیں کہ ہمیں اپنے خون آلود ہاتھ دکھائی نہیں دیتے مگر دوسرے کے لباس پر خون کا چھینٹا بھی مکمل نظر آتا ہے؟

ایسا نہیں کہ مغربی دنیا کے ہاتھ اسلحہ ساز کاروباری اداروں سے لے کر دیگر مفاد پرست منافع سازوں تک پاک صاف ہیں۔ بلکہ اس دنیا میں ہماری تباہی کی وجہ یہ ہے کہ یہاں جس جس شخص کو جس جس طرز کا موقع میسر آ رہا ہے، وہ دیگر انسانوں کو تباہ کرنے اور لوٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا۔ یہاں ہمیں انسانوں پر ظلم نظر نہیں آتا بلکہ اپنے اپنے مفادات نظر آتے ہیں۔ مذمت بھی فقط اپنے اپنے مفادات کے تحت ہوتی ہے۔ انسانوں کا انسانیت سے کوئی ناتا دکھائی نہیں دیتا۔ تو پھر ایسے میں انسانیت انسانیت کا نعرہ اور منافقت چھوڑ کر کہیے کہ آپ کو بھی دکھ نیوزی لینڈ میں انسانوں کی ہلاکت کا نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ وہاں ہلاک ہونے والے مسلمان تھے۔ اگر وہاں ہلاک ہونے والے مسلمان نہ ہوتے، تو یہ دکھ محسوس ہوتا اور نہ ہی کوئی سوشل میڈیا مہم چلتی۔

مظلوم کے لیے آواز اگر صرف اس لیے اٹھائی جائے کیوں کہ اس سے آپ کا کوئی تعلق یا رشتہ داری ہے، تو سمجھ لیجیے کہ آپ کا مسئلہ ظلم ہے نا ظالم بلکہ آپ کا مسئلہ رشتہ داری اور تعلق ہے۔ ورنہ انسان تو آج بھی آپ کے اپنے ہی گھر کے قریب بھی مرا ہے ،آپ کے صوبے سے جبری طور پر لاپتا ہوا ہے، آپ کے ملک میں دہشت گردی کی بھینٹ بھی چڑھا ہے۔ مگر چوں کہ مرنے والے اور مارنے والے دونوں سے آپ کا تعلق تھا، اس لیے آپ منہ دوسری طرف کر کے خاموش ہو جائیں گے۔