ورلڈ سندھی کانگریس، بالکل جئے سندھ

عاطف توقیر

کچھ عرصے قبل ورلڈ سندھی کانگریس کی جانب سے دعوت نامہ ملا اور میں نے اس پروگرام کی تفصیلات اپنے پیج پر شیئر کیں، تو متعدد دوستوں کی جانب سے پیغام ملا کہ عاطف بھائی اس تنظیم کو تو بھارت فنڈنگ کرتا ہے اس میں شرکت نہ کریں۔ میرا سادہ سا موقف ہے اور وہ نہایت واضح ہے۔ اگر پاکستان کے کسی بھی علاقے کا کوئی بھی شہری یا ملک کے کسی بھی حصے سے تعلق رکھنے والے افراد کی کوئی بھی تنظیم مجھے اپنے کسی پروگرام میں بلائے گی، تو میں ضرور جاؤں گا اور ان افراد کا نکتہ ہائے نگاہ سنوں گا۔

یہ موقف تھا، جس کی بنا پر میں پشتونوں سے بھی ملا، مہاجروں کے پروگرامز میں شرکت کے لیے بھی پہنچا، سرائیکیوں کی بیٹھک میں بھی گیا، کشمیریوں کی نشستوں کا حصہ بھی بنا، بلوچوں کی تقریبات میں بھی شامل ہوا اور اقلیتوں بہ شمول احمدیوں کی بات بھی پورے ٹھنڈے دل سے سنی۔

ہمارے ہاں ایک رواج ہے اور اس رواج کے درپردہ ایک پوری ریاستی مشینری ہے کہ اگر کوئی شخص یا تنظیم دستوری حقوق کی بات کرے، تو پورا میڈیا استعمال کر کے جھوٹا پروپیگنڈا کیا جائے اور ایسے کسی بھی شخص یا تنظیم پر ’غداری‘ یا ’کفریت‘ کا فتویٰ لگا دیا جائے، تاکہ لوگ بات نہ سنیں اور عوامی حمایت حاصل نہ ہو پائے۔

اس سرکاری مشینری کے زیراثر ہمارے ہی پیسوں سے ہمیں تک جھوٹ پہنچانے کے کام پر وہ فیس بک کے سات سات آٹھ آٹھ ملین والے صفحات تک موجود ہیں، جن کا واحد کام یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو اس ملک میں شہری آزادیوں کے لیے آواز اٹھائے اسے کوئی نہ کوئی لقب دے کر بات کو ’غدار‘، ’ایجنٹ‘ یا ’اسلام دشمن‘ کی جانب موڑ دیا جائے تاکہ لوگ بات سننے یا اس پر غور کرنے کی بجائے ذاتیات کے گرد گھومنے لگیں۔

کچھ مہاجر دوستوں نے شکایت کی کہ ورلڈ سندھی کانگریس ان کے شدید خلاف ہے اور اس کے پروگرام میں شرکت کا مطلب تو یہ ہو گا کہ آپ مہاجروں کے جائز حقوق ہی سے منکر ہو گئے ہیں۔

خیر میں اس کانفرنس میں میرا سیشن تیسرا تھا، یعنی سہ پہر ساڑھے تین بجے شروع ہونا تھا اور اس سے قبل دو دیگر سیشن تھے، جو صبح دس بجے شروع ہوئے۔ میں نے ہوٹل کے کمرے یا دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں یہ وقت صرف کرنے کی بجائے صبح دس بجے اس کانگریس کے ہال کا رخ کیا تاکہ صبح سے شام تک ہونے والی باتوں کو تفصیلی انداز سے سن سکوں۔

اس پوری بیٹھک میں مجھے ایک جملہ بھی مہاجروں کے خلاف سنائی نہیں دیا، بلکہ دوستوں کی رائے کے برخلاف سندھ بھر کے تمام شہریوں بہ شمول مہاجروں حتیٰ کے استحصال کے شکار پشتونوں، بلوچوں اور پنجابیوں کے تک جائز اور دستوری حقوق کے لیے بات کی گئی۔

دوسری بات بھارت فنڈنگ والی تھی۔ وہ اس تنظیم کے دعوت نامے اور سفری اخراجات یا ہوٹل سے واضح ہو گئے۔ میرے جرمنی سے انگلینڈ تک کے سفر کے لیے مجھے ہدایت کی گئی کہ کوشش کیجیے کہ ٹکٹ جلد اور سستا ہو، سو شاید آپ کو یقین نہ آئے کہ میرے انتہائی سستی ترین ایئرلائن اور اکانومی کلاس کے سفر پر وہی خرچہ ہوا جو کراچی سے لاہور تک کے عمومی ایئر ٹریول کے نصف سے بھی کم تھا۔ یعنی مجموعی طور پر آنے جانے کے 15 ہزار روپے پاکستانی۔

اسی طرح جو ہوٹل مجھے دیا گیا، وہ کوئی فائیو سٹار نہیں تھا، فور سٹار بھی نہیں تھا بلکہ ایک انتہائی سستا سا ہوٹل تھا۔ تیسری بات جس ہال کا انتخاب کیا گیا وہ لندن شہر سے بالکل باہر تھا اور اس ہال کی بکنگ کی وجہ یہ تھی کہ یہ سستا ترین تھا۔ اس کانفرنس میں شرکت کرنے والوں کو کوئی ڈیڑھ گھنٹے کا سفر طے کر کے اس کانفرنس میں آنا پڑا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ پورا ہال اس کے باوجود لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور اس میں تل رکھنے کو بھی جگہ نہیں تھی اور یہ لوگ کانفرنس کی ابتدا سے آخر تک جم کر بیٹھے رہے اور سنتے رہے۔

بدقسمتی دیکھیے کہ اس تقریب کو کوور کرنے کوئی پاکستانی ٹی وی چینل نہیں پہنچا۔ وہ بھی نہیں جو لندن میں چھوٹی چھوٹی تقریبات کی رنگ برنگی تقریبات کوور کرنے پہنچے ہوتے ہیں۔

ورلڈ سندھی کانگریس کے حوالے سے ایک اور بات یہ کہ یہ سندھی قوم پرست تو جئے سندھ کے نعرے لگاتے ہیں۔ تو صاحبو یہ نعرہ میں بھی لگا رہا ہوں، جی بالکل جئے سندھ، جئے پنجاب، جئے کشمیر، جئے خیبر پختونخوا، جئے گلگت بلتستان اور جئے بلوچستان۔

یہ بدقسمتی نہیں تو کیا ہے کہ ہم اپنے ہی دیس کے کسی حصے کے زندہ باد ہونے یا جینے کے نعرے لگنے پر خوف زدہ ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید کوئی پاکستان توڑنے والا ہے۔ ہم یہی سمجھنے کو تیار نہیں کہ یہی لوگ تو پاکستان ہیں، یہی خطے، اب پر بسنے والی قومیں ہی تو ہماری ریاست ہیں اور ان پر موجود زبانیں اور ثقافتیں ہی تو ہمارا فخر ہیں۔

ہماری فکری جہالت یا شاید غیریقینی یا ہٹ دھرمی ہے کہ ہم یہی سمجھنے کو تیار نہیں کہ دنیا میں کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں ایک ہی قوم آباد ہوتی ہے تاہم کچھ ممالک ایسے بھی ہیں، جہاں مختلف اقوام ایک دستور کے ذریعے ایک وفاق کا حصہ ہوتی ہیں اور ایسے ممالک میں دستور کو زیادہ اہمیت اس لیے دی جاتی ہے تاکہ یہ اقوام آپس میں جڑی رہیں۔

قرارداد لاہور (جسے اب ہم قرارداد پاکستان کہتے ہیں) واضح انداز میں بتاتی ہے کہ وفاق میں شامل ہونے والی ریاستیں ہر ہر اعتبار سے خودمختار اور آزاد ہوں گی تاہم کچھ بنیادی امور کی وزارتیں وفاق کو تفویض کی جائیں گی۔ اسی وعدے اور معاہدے کے ساتھ آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنی سیاسی جدوجہد کی تھی۔

پاکستان ایک گلدستے کی طرح ہے، جس میں پشتون، پنجابی، بلوچ، سندھی، مہاجر، کشمیری، گلگت بلتستانی، سرائیکی اور دیگر قومیتیں آباد ہیں۔ بدقسمتی دیکھیے کہ ہم ستر سال سے دستے کی حفاظت تو کرتے جا رہے ہیں، تاہم اس دستے میں موجود پھولوں کی انفرادیت اور خوشبو سے ہمارا کوئی سروکار نہیں۔ ہمیں آج تک یہ سمجھایا گیا ہے کہ دستہ اہم ہے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ پھول اہم ہیں۔ اسی سوچ نے اس گل دستے میں سے بنگال کا پھول ہم سے الگ کر دیا۔

یہاں اس مضمون کو آپ تک پہنچانے کا واحد مقصد یہ ہے کہ جب کوئی غدار غدار یا کوئی اور لقب پکارا کرے، تو فقط ایک سوال کیا کیجے۔ غدار ہی سہی، مگر یہ بتائیے کہ یہ فرد یا تنظیم ایسی کون سی بات کہہ رہی ہے جو دستور پاکستان کے برخلاف ہے؟ کیا اپنے وسائل پر اپنا اختیار مانگنا غداری ہے؟ کیا لوگوں کے لیے حقوق کی بات کرنا غداری ہے؟ کیا لاپتا افراد کے لیے آواز اٹھانا غداری ہے؟ کیا ماورائے عدالت ہلاکتوں پر شکوہ کرنا غداری ہے؟ کیا جمہوریت اور قانون کی سربلندی کا نعرہ لگانا غداری ہے؟ اور اس سے بھی اہم سوال کہ ہمارے ملک میں جمہوریت، دستور، حقوق، شہری آزادی اور قانون کی بالادستی کے لیے بھارت کیوں پیسہ خرچ کرے گا؟
اس لیے کسی بھی بات کو فوراﹰ مان لینے سے قبل سوال کیا کیجیے، شواہد ڈھونڈا کیجیے اور صرف جذباتی نعرے بازی پر اپنی رائے قائم کرنے کی بجائے کچھ سوچ سمجھ کر اپنی رائے قائم کیجیے۔

اور ایک بات اور کہ کسی شخص سے اختلاف کے باوجود اسے عزت دیجیے۔ اس کی بات سنیے اور نادرست باتوں کو دلیل اور علم سے رد کرنا سیکھیے۔ گالیاں دینے یا نعرے لگانے سے نفرت تو پھیلتی ہے مگر قومیں ترقی نہیں کرتیں۔ سمجھ لیجیے کہ پاکستان زندہ باد ہو گا اس لیے سندھ یا بلوچستان یا خیبرپختونخوا یا بلوچستان زندہ باد نہیں ہوں گے، بلکہ جب یہ سب زندہ باد ہوں گے، تو پاکستان خود بہ خود زندہ و پائندہ باد ہو گا اور رہے گا۔

اس لیے میرا سندھ زندہ باد، میرا پنجاب زندہ باد، میرا خیرپختونخوا زندہ باد، میرا بلوچستان زندہ باد اور ہمارا پاکستان ہمیشہ زندہ باد