ویانا 1683 (The Siege of Vienna)

آصف خان بنگش


15 مارچ 2019 کو ایک 28 سالہ سفید فام آسٹریلوی شہری ہیریسن ٹیرنٹ (Harrison Tarrant) نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد میں داخل ہو کر 50 لوگوں پر گولیاں برسا کر ان کا قتل کرتا ہے۔ اس کی شاٹ گن اور رائفل پر جہاں ہٹلر کی “Mein Kampf” کا ذکر تھا وہیں (Vienna 1683)بھی لکھا ہوا تھا۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے ایسا قتل عام کیا گیا اور اس پیغام میں ویانا کے محاصرے کا ذکر ملا ہو، بلکہ اس سے پہلے ایسے ہی ایک جمعہ کی دوپہر 22 جولائی 2011 کو ناروے یے شہر اوسلو میں بلند سرکاری عمارت کے سامنے ایک کار بم دھماکہ ہوا۔ 8 لوگ مارے گئے۔

دھماکا ہوتے ہی حملہ آور نے قریب ایک جزیرے یوٹویا (Utoya) کا رخ کیا جہاں لیبر پارٹی کے نوجوانوں کا ایک سمر کیمپ لگا تھا۔ اس حملہ کے ابتدا میں سیاسی پنڈتوں نے اپنی توپوں کے رخ القاعدہ کی طرف کئے لیکن حملہ آور ایک 32 سالہ نارویجین (Norwegian) آندرز بیہرنگ بریویک (Anders Behring Breivik) تھا۔ پولیس کی وردی میں ملبوس بریویک نے اگلے گھنٹے میں 69 لوگوں کو قتل کیا جس میں 55 نوجوان تھے (13 سے 19 سال)۔ اس دن بریویک نے 77 لوگوں کی جان لی اور لیبر پارٹی کے مستقبل کے سیاستدانوں اور لیڈروں کو کلچرل مارکسسٹ اور (Multiculturalist Hegemony) کے نام پر مارا گیا۔ اس واقعہ سے تھوڑی دیر قبل بریویک نے اپنا 1500 صفحات پر مشتمل اپنا منشور انٹرنیٹ پر شائع کیا جس کا عنوان 2083 تھا۔ یہ 1683 کے ٹھیک 400 سال بعد کا سال ہے جب 12 ستمبر 1683 کو ویانا کی جنگ لڑی گئی تھی۔

یہ جنگ خلافت عثمانیہ اور آسٹرین ہبسبرگز (Austrian Habsbirgs) کے مابین لڑی گئی۔ عثمانیوں نے جن کی سلطنت فارس سے لے کر مراکش تک پھیلی ہوئی تھی نے ویانا کا محاصرہ کیا اور ان کے مقابلے کے لئے پولش لیتھونیا کی دولت مشترکہ (Polish-Lithuanian Commonwealth) جو اس وقت کی ایک بڑی طاققت تھی نے، رومن ہولی ایمپائر اور ہبسبرگز آف ویانا نے (حالانکہ یہ 30 سال تک آپس میں لڑتے رہے تھے) نے مل کر عثمانیوں کا یہ حملہ ناکام بنایا اور انہیں شکست دی۔ اس جنگ کو عیسائیوں نے اسلام پر عیسائیت کی فتح سے تعبیر کیا اوربریویک اور ٹیرنٹ جیسے ناقص العقل لوگوں کو اسے اس طرح سے پڑھایا گیا کہ وہ اسے یورپ سے مسلمانوں کا نکالے جانے سے تعبیر کرنے لگے اور اسے آج کی تاریخ میں ایک (Inspiration) انسپیریشن کے طور پر استعمال کرتے ہیں کہ وہ یورپ سے نا صرف مسلمانوں بلکہ ملٹی کلچرلسٹ فکر کا خاتمہ چاہتے ہیں جو کہ کسی بھی مزہب سے خود کو آزاد سمجھتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ویانا کی جنگ کے 400 سال بعد یورپ پر ایک بار پھر صرف خلصتا سفید فام لوگوں کی حکومت ہوگی۔

ویانا کی جنگ کو جہاں متحد عیسائی فوج (United Christian Army) کی جیت کے طور پر مسلم مخالف لوگوں نے استعمال کیا وہاں اگر جنگ کی تفصیل میں جائیں تو ایک بین المذاہب تعاون سے لڑی جنگ لگتی ہے۔ جہاں کیتھولک عیسائیوں کی مدد کو پولش بادشاہ سوبیسکی (Sobieski) آئے جو کہ ایک ملٹی کلچرل اور (Multi Religous) کثیرمذہبی ملک کا بادشاہ تھا، وہیں اگر سنی عقیدے کے لیپکا تاتار ان کی مدد کو نا آتے تو وہ ترکوں کو ہرا نہ پاتے۔ سوبیسکی نے نا صرف ان کو مذہبی آزادی دی بلکہ ان کے لئے مختلف علاقے بھی دیئے اور مساجد تعمبیرکرنے کی اجازت بھی دی۔ اور ایک غیر اسلامی یورپی ملک میں مسلمانوں کی ایک کمیونیٹی کو دوام بھی بخشا۔ جبکہ دوسری طرف عثمانیوں کے سلطان محمد 4 کا رومن کیتھولک بادشاہ آف فرانس لوئیس 14 کے ساتھ اتحاد رہا جو کئی دہائیوں تک قائم رہا۔ اور (Franco-Ottoman Alliance) فرانس کی تاریخ میں سب سے طویل امن معاہدہ ہے۔ حالانکہ فرانس کا لوئیس اور ہبسبرگ کا بادشاہ دونوں رومن کیتھولک تھے لیکن وہ اس کی مدد کو نہ آیا۔ یہاں تک کہ فرانس کے بادشاہ نے ویانا میں پروٹسٹنٹ بغاوت کا بھی ساتھ دینے کیلئے ترکوں کو آمادہ کیا۔ بغاوت کرنے والے لودھرن تھاکولی کو ہنگری کا بادشاہ بھی بنایا گیا جو عثمانیوں کے زیر سایہ ریاست تھی۔ یہاں پروٹسٹنٹ کو مذہبی آزادی تھی۔ یہ ویانا کی لڑائی میں ترکوں کی طرف سے لڑے اور ان کے ساتھ رومانیہ کے آرتھوڈاکس عیسائی بھی تھے۔ پروٹسٹنٹ چاہتے تھے کہ ہولی رومن ایمپائر کو شکست ہو۔ یہی وجہ تھی کہ صرف پولش ہی ویانا کو بچانے آئے۔ ترکوں کی شکست میں مسلمان تاتاری برابر کے شریک تھے۔ اور یورپ کی تاریخ میں متحدہ عیسائی فوج جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔

ویانا کی لڑائی کے بعد بھی ترکوں نے بلقان پر 200 سال حکومت کی، یونانی، بلغارین، رومانیہ، سرب اور کروایٹ اسی سلطنت میں عیسائی بن کر رہے اور اب بھی وہ آسٹریا اور ہنگری میں رہنے والے عیسائیوں کے مقابلے میں عیسائیت سے زیادہ قریب ہیں۔ سنی ترکوں کا عیسائیوں سے بڑا دشمن 16ویں صدی سے 18ویں صدی تک کوئی اور نہیں بلکہ خود اس کا پڑوسی فارس میں صفوی شیعہ مملکت تھی اور انہی کی شورش سے ترک کسی ایک محاذ پر اپنی قوت نہ جما سکے اور انہیں ویانا میں شکست ہوئی۔ تاریخ کا یہ غلط استعمال بریویک اور ٹیرینٹ جیسے لوگوں کی طرف سے صرف نفرت پر مبنی ہے نہ کہ اس کیلئے ان کے پاس کوئی دلیل ہے۔ اور یہ نفرت اب اس سے کئی زیادہ ہے جب بریویک نے اپنے ہی ملک کے لوگوں کو قتل کر کے عام کی تھی، 7 سال بعد ٹیرنٹ نے اس کا رخ مسلمانوں کی طرف موڑا۔ سوال یہ ہے کہ نفرت کے اس طوفان کا راستہ روکنے کیلئے ملٹی کلچرل فکر کی حامل دنیا اور مسلمان مل کر کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

@akhanbangash

تحریر میں تاریخی مواد (Dag Herbjornsrud) کی تحاریر سے اخذ شدہ ہے۔ جو کہ اوسلو میں موجود (The Center of Global and Comparative History of Ideas) کے بانی ہیں۔