پاکستان، بھارت، یورپ اور جنگیں

بابر اقبال وڑائچ

جب کبھی فیس بک کے مصنفین، تجزہ نگاروں اور صحافیوں کو دیکھو ہر بات پر جنگ اور فوج کے نام پر لڑنے مرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ منٹوں میں ایٹم بم بھارت کے شہروں پر مارتے نظر آتے ہیں۔ اس میں ان کا قصور نہیں۔ دراصل ان کےنصاب نے ان کی تربیت ہی ایسی کی ہے۔

مزے دار بات یہ ہے کہ ٹھیک یہ لوگ ترقی کی مثالیں یورپ سے اٹھاکر دیتے ہیں۔ مگر کبھی اس یورپ کی ترقی کی وجہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ کبھی یورپ کی تاریخ پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے۔ کتاب اور تاریخ سے ان کا دور تک کوئی رشتہ نہیں۔
پاکستان کی پسماندگی میں جتناکردار ان جنگوں اور جنگجوگروپوں کا ہے شاید ہی کسی اور کا ہو۔ جب سے پاکستان کا قیام ہوا تب سے پاکستان کسی نہ کسی طرح حالت جنگ میں ہے۔ ہم چار جنگیں لڑ چکے ہیں اور نتیجہ صفر ہے۔ بلکہ ہم اپنا آدھا ملک کھوچکے ہیں۔ اس کے باوجود ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہم اربوں کھربوں روپے اسلحے کی تیاری یا خریداری میں جھونک رہے ہیں مگر شاید ہی ہم نے تعلیم کو جنگی بنیادوں پر ترجیح دی ہو۔

اگر تعلیم دی تو وہ ایک ایسے جہاد کی جس کی وجہ سے ہم آج دہشت گردی کا شکار ہیں۔ جن کی مثال دیتے ہیں وہ ہمیں اک بیمار ملک اور دہشت گرد سمجھتے ہیں۔

یورپ نے اپنی تاریخ کے اوراق کو جب پلٹ کردیکھا تو وہ جنگوں اور انسانی بربریت سے بھرا پڑا تھا۔Waterloo بیلجیم کامیدان ہو، Strabourg فرانس ہو، normandy یا Donkerque فرانس کا ساحل ہو، Stutgart جرمنی ہو یا پھر Auschwitzپولینڈ کے اذیتی کیمپ، ہر جگہ انسانی خون اس طرح بہایا گیا کہ شاید زمین بھی چیخ اٹھی ہو کہ بس کرو۔

یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد اک سوچ نے جنم لیا، جس کو لبرل ڈیموکریسی کہتے ہیں۔ یہاں کے سینٹر لیفٹ سوشلسٹوں اور سینٹر رائٹ قدامت پسندوں نے یورپ کے ہر ملک خاص طور پر مغربی یورپ کے ہر ملک جن میں جرمنی، فرانس، اسپین، اٹلی، برطانیہ، بلجیم اور ہالینڈ نمایاں ہیں، اپنے اپنے ملک میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگے ۔ ان کے رہنماؤں نے اپنے ماضی کو بھولا کر اک نئے یورپ کی بنیاد رکھنے کی ٹھان لی، جس میں جنگ کا کوئی تصوریا گنجائش نہ ہو، جس میں ترقی ہو، جس میں رنگ، نسل، زبان اور مذہب پر کوئی اختلاف نہ ہو۔ تعلیم ،صحت اور عوامی ویلفیر کوترجیح دی جائے۔

اس کے نتیجے میں آہستہ آہستہ یورپین یونین، ویزہ فری زون، چیک پوسٹ کے بنا باڈر اور پھر مشترکہ کرانسی کا وجود عمل میں آیا۔
جرمنی اور فرانس جوکبھی ایک دوسرے کے سب سے بڑے دشمن تھے، آج دنیا کی سب سے بڑی جہاز سازکمپنی AIRBUS کے برطانیہ اور اسپین کے ساتھ ملک کر شراکت دار ہیں۔ یورپین اسپیس ایجنیسی ESAکے شراکت دار ہیں۔ بات یہاں پر نہ ختم ہوگی بلکہ یورپین بنیک، مشترکہ آرمی، بڑی بڑی میڈیسن کی کمپنیز مشترکہ بنا کر دنیا کی اقتصادیات پر حاوی ہیں۔

اور ایک ہم ہیں جن کی سوچ کے DNA میں جنگ اور بندوق کی سوچ سے آگے ڈالا کچھ نہیں گیا۔ جنگی سامان کے علاوہ شاید ہی کوئی ایسی چیز ہم نے بنائی ہوجس پرہم فخر کرسکیں۔ تعلیم کامعیار یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کو کاروبار بنالیا ہے۔

جس بھارت سے ہم جنگ کاسوچتے ہیں اس کی IT کی ایکسپورٹ 100ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔ اس کے TATAگروپ نے Land Roverاور Jagaur جیسے بڑے اور لگژری کار ساز ادارے خرید لیے ہیں۔

جب تک یہ جنگ کی سوچ نہیں بدلے گی تب تک پاکستان میں ترقی کا جراثم داخل ہونا ناممکن ہے ۔