پاکستانیوں کے لیے تونسہ شریف سے توقیر بلوچ کا پیغام!

 توقیربلوچ

میرے عزیز ہم وطنو! میں متبادل کے ذریعے  تونسہ شریف میں ہونے والی تباہ کاریوں کا المیہ آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں۔ میں نے شدید بارش سے پیدا ہونے والی ہولناک سیلابی صورتحال کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کی فہرست متبادل کو بھیج دی ہے۔ یہ تحصیل تونسہ کی سب سے نزدیک ترین بستی سوکڑ کے اعداد و شمار ہیں۔ باقیوں کا ڈیٹا اس وقت میرے پاس موجود نہیں ہے۔ یہاں ریاست و حکومت کی طرف سے کوئ امدادی کاروائی نہیں کی گئی لوگ ابھی تک بے گھر بیٹھے ہوۓ۔

14 اگست دوپہر 12 بجے پانی بستی کے اندر داخل ہوا تھا۔ ہم اسسٹنٹ کمشنر تونسہ ڈی سی، ڈی جی خان اور ایریگیشن حکام کو 26 جولائی سے کہتے رہے  کہ بستی کا حفاظتی بند بہت کمزور ہے۔ اضافی پانی آنے کی صورت میں بند ٹوٹ جاۓ گا۔ آپ براۓ مہربانی اپنی ذمہ داری پوری کریں لیکن کسی نے کوئی توجہ نہیں دی بلآخر 14 اگست کے روز 30 ہزار آبادی والی بستی انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کے سبب سیلاب برد ہو گئی۔

میرے دوستو! 

ہم لوگ صدیوں سے یہاں آباد ہیں۔ یہاں کبھی سیلابی پانی نہیں آیا اس بار کیوں ہر چیز تباہ ہوگئی ہے؟

جان بوجھ کے پانی کے قدرتی بہاؤ والے راستوں کو یا تو بند کر دیا گیا یا تنگ کر دیا گیا ہے۔ آخر ایسا کیوں کیا گیا؟؟ ہمیں جواب دیا جاۓ۔

ایک مہینے سے ضلع ڈی جی خان میں سیلاب کا سلسلہ جاری ہے ریاستی اعداد و شمار کے مطابق 80 یونین کونسلوں میں  7 لاکھ لوگ 14 لاکھ 81 ہزار ایکڑ رقبہ 58593 گھر متاثر ہوۓ ہیں۔ ان کا پرسان حال کوئی نہیں۔ اتنی بڑی تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟

ستم ظریفی دیکھیں! ڈپٹی کمشنر ڈی جی خان سے سیلاب متاثرین نے کہا سر ہم ڈوب گۓ ہیں ہماری مدد کریں، ڈی سی صاحب نے جواب دیا کہ میں کیا کر سکتا ہوں؟ دعا ہی کر سکتا ہوں آپ بھی دعا کریں۔ تونسہ شریف کے ایم پی اے خواجہ داؤد صاحب نے کہا ہے یہ سیلاب ہمارے گناہوں کی وجہ سے آیا ہے آپ بھی توبہ کریں ہم بھی توبہ کرتے ہیں۔ تونسہ شریف کے ایم این اے خواجہ شیراز صاحب سے متاثرین نے کہا آپ کچھ کر نہیں رہے پانی ہمیں تباہ کیے جا رہا ہے۔ موصوف جواب دیتے ہیں کہ اگر میرے کچھ کرنے سے پانی رکتا ہے تو خدا کی قسم مجھے اٹھا کے اس پانی میں پھینک دو۔

اتنے دنوں سے یہاں پانی کھڑا ہے جس میں مرے ہوۓ انسانوں اور جانوروں کی باقیات موجود ہیں۔ اس وجہ سے یہاں وبائی بیماریاں پھیل رہی ہیں جن میں ڈینگی، ملیریا اور الرجی سرفہرست ہیں۔ لیکن ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی میڈیکل کیمپ نہیں لگایا گیا۔ 

ہم مسلسل 20 اگست سے پریس کلب اسلام آباد، کراچی، لاہور لبرٹی چوک، لاہور پنجاب اسمبلی، لاہور مزنگ چونگی  پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ہمارے احتجاج پر میڈیا کی جانب سے بلیک آؤٹ کیا گیا ہے آخر کیوں ؟

آخر میں چند سوالات آپ کے حوالے کررہا ہوں:

کیا ہم ریاست پاکستان کا حصہ نہیں ہیں؟

کیا ہمارے پاس سبز شناختی کارڈ نہیں ہے؟

کیا ہم ریاست کو ٹیکس نہیں دیتے؟

کیا ہم ریاست کے اداروں میں خدمات سرانجام نہیں دیتے؟

ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟

کل جب ہماری زبان سخت ہو جاۓ گی تو

پھر آپ ہم سرائیکیوں کو بھی  بنگالی، سندھی بلوچ، گلگتی، پختون اور ہزارہ کی طرح غدار قرار دیں گے۔

ایک عام پاکستانی

توقیر بلوچ