پاکستان میں اقتدار کی تکون، پنجاب اور نواز شریف

پاکستانی تاریخ کو بہ غور دیکھیے تو ہمارے ہاں شروع دن سے اقتدار ایک تکون میں گھومتا رہا ہے۔ جمہوریت کی لکیر سیدھی ہوتی ہے، مگر پاکستان میں شروع سے یہ لکیر موڑ کر تکون بنا دی گئی تھی۔

اس تکون کے ایک کونے پر طاقت ور اسٹیبلشمنٹ رہی ہے، جس میں سب سے بڑے شیئرز فوج کے ہیں۔ دوسرے کونے پر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ پارٹی رہی ہے اور ہر ہر موقع پر تکون کے تیسرے کونے پر ایک ایسا گروہ، برادری، تنظیم، سیاسی جماعت یا رہنما رہا ہے، جس نے اس تکون کو توڑ کر دوبارہ لکیر سیدھی کرنے کی کوشش کی اور مزے کی بات ہے ایسے کرنے والے ہر گروہ یا رہنما پر وطن دشمن عناصر یا غدار یا ایجنٹ یا سکیورٹی رِسک کا لیبل چسپاں کیا گیا۔ اس تکون میں اقتدار یا تو براہ راست اسٹیبلمشنٹ کے پاس رہا ہے یا اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ کونے کے پاس۔ اگر کبھی تیسرے کونے پر اگر اقتدار پہنچا یا پہنچنے لگا بھی، تو اسے دونوں کونوں نے ملک کر دوبارہ بانجھ کر دیا۔ اس عمل میں ریاست کے تمام تر دیگر ادارے بہ شمول عدلیہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے رہے۔

اس تکون میں وطن دشمن عناصر والے کونے پر محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح بھی رہیں، پاکستان کے ساتھ سندھ کے الحاق کی قرارداد سندھ اسمبلی سے منظور کروانے کے لیے مسلم لیگ کا ساتھ دینے والے جی ایم سید بھی، پشتونوں کے حقوق کے لیے زبردست انداز سے بولنے والے باچا خان بھی، سائیکل پر تحریک پاکستان کا حصہ بننے والے مجیب الرحمان بھی، بلوچستان کے وزیراعلیٰ اورگورنر کے عہدے پر کام کرنے والے اکبر بگٹی بھی اور ان جیسے دوسرے رہنما اور جماعتیں بھی۔ ادھر اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ کونے پر بھی فقط وہی ٹِکا جب تک وہ پُتلی کی طرح ناچتا رہا اور جہاں اس نے سر اٹھانے کی کوشش کی، اقتدار میں شراکت کا دعویٰ کیا یا اختیارات مانگے اسے اٹھا کر وطن دشمن والے کونے کی جانب دھکیل دیا گیا۔ اس کی ایک مثال بھٹو ہیں، جو ایوب خان کے دور میں وزیرخارجہ تھے اور انہیں مجیب الرحمان کے سامنے کھڑا کیا گیا تھا تاہم بعد میں جب بھٹو نے عوامی طاقت حاصل کر لی اور خود کو بااختیار بنانے کی کوشش کی تو انہیں بھی ملک دشمن قرار دے کر اور تیسرے کونے پر لا کر ٹانگ دیا گیا۔

نواز شریف بھی اس کی ایک بڑی مثال ہیں۔ نواز شریف کا ماضی جاننے والا ہر شخص جانتا ہے کہ وہ اُس وقت اسٹیبلشمنٹ کے منظورِ نظر تھے، جب بے نظیر بھٹو ملک دشمنی والے کونے میں رکھی گئی تھیں۔ نواز شریف ضیاالحق جیسے آمر کی طرف سے متعارف کروائے گئے ایک مصنوعی رہنما تھے اور وہ ہمیشہ دوسرے کونے پر کھڑے ہو کر اسٹیبلشمنٹ کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ مگر پھر انہوں نے بھی خود کو وزیراعظم سمجھ کر اختیار مانگنے کی غلطی کر لی۔

اس تکون کی سب سے خاص بات یہ رہی ہے کہ ملک دشمنی والا کونا ہمیشہ پنجاب سے باہر رہا ہے۔ فاطمہ جناح ہوں، جی ایم سید ہوں، مجیب الرحمان ہوں یا عبدالغفار خان، کونا ہمیشہ پنجاب سے باہر ہی رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وقت بیتنے کے ساتھ ساتھ پنجاب سے باہر کسی بھی شخص کو بہت آسانی کے ساتھ غدار، جاسوس یا ملک دشمن کا لقب دیا جا سکتا ہے۔

تاہم اسٹیبلمشنٹ کے کونے پر رہنے والے نواز شریف کی صورت میں معاملہ مختلف ہو گیا۔ پہلی بار اس تکون کا تیسرا اور ملک دشمن کونا پنجاب میں آ چکا ہے۔

اس وقت اس کے ایک کونے پر حسب روایت اسٹیبلشمنٹ ہے، جو اس پورے تاریخی تسلسل میں واحد ہے، جس نے اپنے کونہ کسی کے ہاتھ نہیں لگنے دیا۔ دوسرے کونے پر وہی ہر دور کی طرح اس اسٹیبلشمنٹ کے آشیرباد والی جماعتیں موجود ہیں۔ یعنی اس وقت کی تکون میں ایک طرف پنڈی ہے، ایک طرف میانوالی اور ایک طرف لاہور۔

اور ماضی میں جمہوریت اور دستور کے نعرے لگانے والی پیپلز پارٹی، جو اکثر اس تکون کے تیسرے کونے پر رہی ہے، وہ بھی اپنی تمام تر روایات سے انحراف کرتی ہوئی، دوسرے کونے پر پی ٹی آئی کے پاس جا پہنچی ہے۔ نواز شریف پہلی مرتبہ اس تکون کے تیسرے کونے پر آن پہنچے ہیں، جہاں فقط وہ گروہ ہیں جو ملک میں دستور اور جمہور کی حکم رانی کے ذریعے تکون توڑ کر سیدھی جہت میں ملک کے سفر کے حامی ہیں۔

پاکستان کی تاریخ اور سیاسی منظرنامے کو جاننے والے ہرشخص کو معلوم ہے کہ ملک میں طاقت کا ارتکاز پنجاب میں رہا ہے اور اگر اس تکون میں کوئی تبدیلی آ سکتی ہے، تو وہ فقط پنجاب ہی سے آ سکتی ہے۔ میں بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کے یہ تک کہہ دوں کہ اگر نواز شریف کی وجہ سے اسٹیبلمشنٹ پر دباؤ پڑنے کا یہ عالم نہ ہوتا، تو پشتون تحفظ موومنٹ کے لیے بھی راستہ پیدا نہیں ہو سکتا تھا اور انہیں اس تحریک کو اس مقام پر لانے اور اپنے حقوق کے لیے اس طرح زوردار انداز سے کھڑنے ہونے میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔

میں کم از کم یہی سمجھتا ہوں کہ ہم سب کو ہر رہنما، گروہ یا جماعت کو عمومی بے اعتباری یا ماضی کی بھیانک غلطیوں کی بجائے بیانیے اور موقف کے ساتھ دیکھنا اور پرکھنا ہو گا۔ یعنی ٹھیک اس وقت، ٹھیک اس موضوع پر کس کا کیا بیانیے ہے۔ نوازشریف کا یہ بیان کی میموگیٹ اسکینڈل میں اس وقت کی پیپلز پارٹی حکومت اور حسین حقانی کے خلاف کھڑے ہو کر انہوں نے غلطی کی تھی، خود یہ بتا رہا ہے کہ کچھ چیزیں نواز شریف صاحب کو سمجھ آ رہی ہیں، یا کم از کم وہ تسلیم ضرور کر رہے ہیں۔

نواز شریف کے ماضی کے بیانیوں پر ہم بھرپور تنقید کرتے رہیں ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اقتدار کی ڈور ان کے پاس پہنچے تو وہ پھر سے کھسک کر دوسرے کونے پر جا پہنچیں اور ان کے خلاف مجھ سمیت ہر سوچنے والا پھر سے قلم اٹھا لے ، مگر یہ بات طے ہے کہ کم ازکم اس وقت نواز شریف ایک درست بیانیے اور موقف پر کھڑے ہیں اور جب تک کھڑے ہیں، وہ ملک کے جمہوری مستقل کے لیے بہتر راستہ پیدا کرنے اور اس دیس کے سیاسی ارتقا میں بہتری لانے کی راہ پر ہیں۔ وہ جس روز دوبارہ اپنی پرانی روش پر جا پہچنیں گے، ان پر ایک مرتبہ پھر ہر سوچنے سمجھنے والے کو شدید تنقید اور مزاحمت کرنا ہو گی۔