پاکستان میں سیلاب کی وجوہات اور تدارک

 ڈاکٹر حفیظ الحسن

کہانی نئی نہیں بہت پرانی ہے۔ ایک ملک ہے جسکو قدرت نے بہت سے دریا دیے ہیں مگر یہ ملک بے قدروں کے ہاتھ میں ہے۔ زراعت سے وابستہ یہ ملک ہر سال مون سون کی بارشوں یا معمول سے زیادہ کی برسات سے ڈوبا رہتا ہے۔ جس طرح دہشتگردی کچھ عرصہ قبل اتنی بڑھ گئی تھی کہ لاشیں دیکھ کر ہلکی سی آہ کے سوا دل سے کچھ نہ نکلتا ویسے ہی اب ہر سال سیلاب میں لُٹے لوگوں کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ بستیوں کی بستیاں اُجڑ جاتی ہیں۔ مال مویشی، ڈھور ڈنگر سب ڈوب جاتے ہیں۔ بچ جاتی ہیں تو کچھ چلتی پھرتی لاشیں جو اتنی بھی سکت نہیں رکھتیں کہ پوچھ سکیں کہ بھائی کونسے جرم کی سزا ہے کہ ہر سال پانی بہتا پہاڑوں سے ہے مگر رستا ہماری آنکھوں سے ہے۔

 

پاکستان میں کم و بیش ہر سال سیلاب آتے ہیں۔ 2010 کے سیلاب میں ملک کا پانچواں حصہ ڈوب گیا۔ دو کروڑ سے زائد لوگ متاثر ہوئے مگر تاریخ سے کسی نے نہ سیکھا۔  

 

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال اوسطاً 7 لاکھ سے زائد افراد سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں جس سے معیشت کو 3 ارب ڈالر سے بھی زیادہ کا نقصان ہوتا ہے۔ سیلاب متاثرین کی یہ تعداد 2030 تک سالانہ 30 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ گوبل وارمنگ کے باعث گلیشیرز سے برف پگھلنے کی رفتار غیر معمولی ہو گئی ہے جو سیلاب کی شدت کو ہر سال بڑھاوے دے رہی ہے۔ مگر سیلاب سے تباہی کوئی نوشتہ دیوار نہیں ۔ عقل اور بہتر منصوبہ بندی سے قدرت کے منہ زور گھوڑے کو لگام دی جا سکتی ہے۔ غریبوں کو قدرت کے آگے بے بس ہونے کی گولیاں چٹا کر کب تک انسانی نااہلی چھپائی جا سکتی ہے؟

 

جنگلات کے تحفظ ، شجرکاری اور دیگر قدرتی وسائل کو بروئے کار لا کر سیلاب سے ہونے والی تباہی کو روکا جا سکتا ہے۔ جدید مواصلاتی نظام اور بروقت خطرے کی پیشنگوئی کے نظام یعنی Early Warning Systems کو بہتر بناکر  کر اموات اور املاک کے نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔

 

آج مہذب دنیا میں جدید سائنسی طریقوں، خلا سے کیئے گئے زمینی سروے اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے سیلاب میں تباہیوں کو ممکنہ حد تک کم کیا اور روکا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ زیادہ مہنگا نہیں بہ نسبت اُس نقصان کے جو ہر سال معیشت کو لاحق ہوتا ہے۔ مگر ضرورت عوامی سطح پر اپنا حق مانگنا اور سیاسی ارادوں پر منحصر ہے۔ 

 

پاکستان سب سے بڑے دریا دریائے سندھ کے بیسن کی آدھی زمین زراعت، نئی آبادیوں اور لینڈ مافیا کے زیر اثر ہے مگر پھر بھی  کافی زمین ہے جہاں بہتر منصوبہ بندی سےسیلاب کے پانی کی نکاسی کی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے 2012 کی رامسر ایڈوائزری مشن کی رپورٹ کے مطابق بہاولپور میں لال سہانرا نیشنل پارک اور سندھ میں سکھر اور گڈو بیراج کے علاقے تجویز کیے گئے ہیں۔ 

 

سیلاب سے آنے والی ہر سال کی تباہی میں ایک اور مسئلہ سیاسی بھی ہے۔ وہ لوگ جن کے پاس زمینیں نہیں ہے، سیاستدان اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لیے انہیں جان بوجھ کر اُنہی علاقوں میں زمینیں الاٹ کراتے ہیں جہاں سیلاب کا خطرہ زیادہ ہو، وہاں انہیں کچھ بنیادی سہولیات مہیا کر دی جاتی ہیں۔ غریب بھلا کیا پوچھے کہ اسے تو روٹی سے مطلب ۔ لہذا ہر سال سیلاب سے وہی لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں، انہیں بار بار منتقل کیا جاتا ہے اور یوں جب وہ دوبارہ اپنی الاٹ شدہ زمینوں پر آتے ہیں تو زیادہ آبادی لے کر۔ یہ ایک طرح سے انسانی نسلوں کے ساتھ کھیلنا ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ 

 

پاکستان میں سیلاب سے تدارک کے حوالے سے چائنہ کی تاریخ سے سیکھا جا سکتا ہے۔ چین کا تیسرا بڑا دریا، دریائے ینگتزی 6300 کلومیٹر لمبا ہے اور یہ چین کے 19 صوبوں سے گزرتا ہے۔ اس دریا سے چین میں کئی سیلاب آئے جس سے ماضی میں بہت تباہی ہوئی مگر سب سے بڑا سیلاب 1998 میں آیا جس میں 4 ہزار سے زائد لوگ مرے اور معیشت کو 25 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس سیلاب کے بعد چین نے سبق سیکھا اور بہتر منصوبہ بندی سے آئندہ کے لیے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچا۔ اُنکی پالیسی کا محور تھا: 

“فطرت سے لڑنا نہیں بلکہ اسکے ساتھ ملکر کام کرنا ہے”-

اس پالیسی کے تحت جنگلات میں اضافے، انکے کٹاؤ میں کمی،مرطوب زمینی علاقوں میں اضافہ اور آبی ذخائر کو بہتر بنایا گیا۔ 

 

مگر سب سے اہم فیصلہ ایک مرکزی مینیجمینٹ اتھارٹی کا قیام تھا جو دریا سے متعلق تمام امور کو دیکھتی جس میں ماحولیاتی ، معاشی اور معاشرتی امور سب شامل تھے۔

 

سیلاب کے حوالے سے مملکتِ خداداد میں سنجیدگی کا حال یہ ہے کہ یہاں اس وقت چوتھا نیشنل فلڈ پروٹیکشن پلان چل رہا ہے جسے 2013 میں تجویز کیا گیا اور اسے 2015 سے 2025 تک چلنا تھا۔ مگر سرخ فیتوں اور سیاسی ملاکھڑوں کے باعث اس اس پلان کے لئے رقم 2018 میں منظور ہوئی جو تقریباً 332 ارب روپے ہے۔ اس میں سے تقریباً 291 ارب روپے انفراسٹرکچر میں بہتری اور باقی 41 ارب روپے دیگر امور جیسے کہ بہتر وارننگ سسٹم کے قیام پر خرچ کی جائے گی۔ اس منصوبے کے دو مراحل ہیں۔ جن میں سے پہلے مرحلے پر “تیزی” سے کام جاری ہے۔ جسکا ثبوت آئے روز خبروں کی زینت بنتا ہے۔  

 

اسکے علاوہ پاکستان میں River Act بھی پاس ہو چکا ہے جسکے تحت دریا اور اسکے کے پاس کی زمین پر ناجائز اور غیر قانونی تجاوزات اور آبادیوں کو کو روکنا صوبائی حکومتوں کی ذمہ دار ہے مگر حال یہ ہے کہ پاکستان کے تمام دریاؤں کے پاس غیر قانونی تجاوزات متعلقہ حکومتی اداروں کا منہ چڑا رہی ہیں۔

 

فطرت توازن کا نام یے۔ عقل و شعور یہ کہتا ہے کہ قدرت سے لڑا نہیں جا سکتا بلکہ اسے استعمال کر کے انسانی زندگیوں کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ نسلوں کی تباہی وقتی فوائد کے لئے گھناؤنا ترین عمل ہے۔