پاکستان کی آئینی تاریخ کے ٹوٹے ٹکڑے
عروسہ ایمان
پاکستان کی آئینی تاریخ کا اگر مجموعی جائزہ لیں تو پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک آئینی بحران کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ جن میں دو پہلے آئین نافض ہوئے اور مارشل لاء مسلط ہوتے ان آئین کو منسوخ کر دیا گیا۔ جب کہ 1973 کے آئین میں بھی کہیں ترمیم کیے گئے ہیں۔ یہ آئین بھی شاید کہ محفوظ نا ہوتا مگر آرٹیکل 6 کے خوف نے، 1973 کے آئین کو ہمارے پاس رہنے پر مجبور کر دیا۔ اب بھی اگر اس آئین کو دیکھا جائے تو وہ اپنی اصلی شکل سے بالکل مختلف نظر آئے گا۔
آرٹیکل 6 اپنے کھلے الفاظوں میں کہتا ہے کہ اگر کوئی بھی اس آئین کو منسوخ کرے گا، متاثر کرے گا، معطل یا آستگت منعقد کرے گا، یا کوئی سازش، کوئی کوشش کرے گا اس آئین کو منسوخ کرنے کے لئے، متاثر کرنے کے لئے، معطل یا آستگت منعقد کرنے کے لئے وہ غداری کا مجرم منعقد ہوگا۔
نو سالوں کے طویل عرصے کے بعد، پاکستان نے اپنا پہلا آئین نافض کیا۔ جو تقریباً دو سال نافذ ہوا۔سیاسی بحران بڑھنے کے بعد بالآخر 7 اکتوبر 1958 میں اس وقت کے صدر اسقدر مرزا کا آئین کو منسوخ کرنے کا اعلانیہ سامنے آیا اور یوں پاکستان کی تاریخ میں مارشل لاء نے جنم لیا۔ جرنل ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوا۔
اس کے بعد، 1962 میں ایک نیا آئین اس وقت کے صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ایوب خان کی نگرانی میں اختراع کیا گیا جو یکم مارچ 1962 سے نافذ ہوا تھا۔ جس میں انتخابات فعال کیے گئے اور اسمبلیاں منعقد ہوئی تھی۔ 8 جون 1962 راولپنڈی میں قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوا جس میں مارشل لاء کو حتمی شکل دی گئی۔
1962 کے آئین میں صدراتی نظام لایا گیا اور صدر کو سارے اختیارات حاصل تھے۔ یہ آئین بھی صرف سات سال چل سکا۔ 25 مارچ 1969 میں پاکستان ایک بار پھر مارشل لاء کے قدموں تلے دبوچ دیا گیا۔ ملک بھر میں بڑھتے احتجاج اور ہڑتالوں نے ایوب خان کو اپنے عہدے سے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس نے اپنے عہدے سے ہٹنے کے بعد سارے اختیارات جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دیے۔
اس کے بعد 1970 میں عام اتخابات کروائے گئے جس میں عوامی لیگ کے مجیب الرحمن کی اکثریت کے باوجود ان کی حکومت نہیں بننے دی گئی اور ان کو بھارت کا ساتھ ملا جس کے بعد ہم نے پاکستان کی ایک ونگ، مشرق پاکستان کو کھو دیا۔ مشرق پاکستان کی علیحدگی کے بعد ذولفقار علی بھٹو کو پاکستان کا صدر بنا دیا گیا۔ اس نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا اور دوسرا مارشل لاء اپنے اختتام تک پہنچا۔
10 اپریل 1973 کو قومی اسمبلی پاکستان نے متفقہ طور پر نیا آئین منتقل کیا جو 14 اگست 1973 سے لاگو ہوا۔ جس میں پارلیمانی نظام لایا گیا اور ذیادہ اختیارات وزیر اعظم کو دیے گئے۔
1977 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جیت کے بعد، مشترکہ اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلی کرنے کا الزام لگایا اور نئے انتخابات کا مطالبہ کر دیا۔ پہلے ذولفقار علی بھٹو نے سمجھوتہ کرنے کا سوچا اور پھر اپنی بات سے ہٹ کر تاریخی ‘یو ٹرن’ نے جنم لیا۔ مگر اپوزیشن جماعتوں نے سمجھوتے سے انکار کیا اور اس بڑھتے تنازعہ نے پاکستان کی تاریخ کا تیسرا مارشل لاء جنمہ۔ اس میں نیا یہ تھا کہ پچھلے دو مارشل لاء کی طرح آئین منسوخ نہیں کیا گیا بالکہ اس کو آستگت منعقد کیا گیا۔
4 جولائی 1977 تک آئین آستگت منعقد رہا۔ اس کے بعد وسیع ترمیم کے بعد پھر سے یہ آئین بحال ہوا۔ آئین میں آٹھ ترمیم کے بعد جنرل محمد ضیاء الحق نے تیسری مارشل لاء کا خاتمہ کیا۔
ایک بہت بڑے بحران کے بعد پاکستان کا آئین ایک بار بھر آستگت منعقد ہوا۔ پرویز مشرف نے ہنگامی حالت میں اعلانیہ جاری کیا اور خود چیف ایگزیکیٹو کا عہدہ سنبھال لیا۔ عدالت اعظمی نے پرویز مشرف کو تین سال تک مدت ملازمت کا وقت دیا۔ اس وقت کے خاتمے کے بعد پرویز مشرف نے پانچ سالوں کے لئے خود کو پاکستان کا صدر منتخب کیا۔
ایک طویل سیاسی بحران کے بعد پاکستان کی آئینی تاریخ کا ایک اور نفرت انگیز باب کھل کر سامنے آیا جس کا نام تھا ‘این آر او’ جس میں یکم جنوری 1986 کے درمیاں سیاست دانوں، سیاسی کارکنوں اور بیوروکریٹس کے سارے جرائم معاف کر دیے گئے۔
2008 کے عام انتخابات ہوئے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اکثریت سے قومی اسمبلی میں اپنی جگہ بنا دی۔ اپریل 2010 میں، سیاسی دباؤ کے بعد صدر آصف علی زرداری نے اٹھارویں ترمیم کی منظوری دے دی جس میں صدر پاکستان کو پارلیمان کو تحلیل کرنے کی طاقت چین لی گئی۔
اور پی پی کے حکومت کے پانچ سال پورے ہونے کے بعد نون لیگیوں نے اپنے پانچ سال پورے کیے اور اب پاکستان میں پی ٹی آئی کی حکومت اس وسوسے کے ساتھ جاری ہے کہ اٹھارویں ترمیم کو کہیں وہ ترمیم نا کر دیں۔
پاکستان کے دو آئین منسوخ ہونے کے بعد، تیسرا آئین بھی دو بار معطل ہونے کے ساتھ ساتھ پچیس بار ترمیم ہوا ہے۔ جس نے اس آئین کی حقیقی شکل بالکل بدل دی ہے۔