پاک سرزمین کا نظام

عبدالروف خاں

مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے کہ جب آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا تھا تو اُس کے کئی دن بعد میں اُن معصوم پھولوں کی تصویریں، اُن کے ماں باپ کی گفتگو سُن کر بہت رویا تھا۔ شاید میں کئی ہفتے روتا رہا اور کی بورڈ سنبھال کر احسان اللہ احسان اور تحریک طالبان پاکستان کے خلاف بولتا رہا۔

دوسری دفع مجھے سانحہ ساہیوال نے رُلایا ہے میں نے جب بھی اُن بچوں کی پیٹرول پمپ پر کھڑے بے سہارا، بے چارگی اور غم سے نڈھال چہرے دیکھے کہ جی چاہا ایک لمبی چیخ ماروں اور دل کھول کر رودوں۔ بہنون کے بھائی کے گولی لگی ہوئی ہے لیکن وہ غم سے ساکت سوچ رہا ہے کہ ابھی چند ہی لمحے پہلے تو ہم اپنے ابو کی طرف سے دی گئی لیز چپس، چاکلیٹ بسکٹ اور نمکو سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ ابھی چند ہی لمحے پہلے تو میری امی نے چھوٹی بہن کے لئیے دودھ کا فیڈر بنایا تھا اور وہ گود میں اُسے لٹا کر دودھ پلا رہی تھی۔ ابھی چند ہی لمحے پہلے اریبہ باجی میرے سر میں اپنی اُنگلیاں پھیر رہی تھیں اور ہم سب ہنس رہے تھے۔ بہت خوش تھے۔ ابھی چند ہی لمحے پہلے تو میرے ماں باپ کے چہروں پر مسکراہٹ کا راج تھا۔ سفر بہت ہی اچھے طریقے سے کٹ رہا تھا۔ ہم سب بہن بھائیوں نے بالکل نئے کپڑے پہنے تھے جو ہمارے ابو ہمارے لئیے لائے تھے۔ کتنے پیار سے امی نے آج ہم سب کواپنے ہاتھوں سے گرم پانی سےنہلایا تھا اورہمیں کتنے چاو سے تیار کیا تھا۔

ابھی ہم نے ساہیوال ٹّول پلازہ کراس ہی کیا تھا کہ پولیس کی دو گاڑیوں نے ہمیں روک لیا اور بندوقیں تان لیں۔ میرے ابو حیران پریشان تھے اورابو کے دوست انکل ذیشان بھی گاڑی سائیڈ پر لگارہے تھے کہ پولیس والوں نے فائرنگ کرنی شروع کردی۔ میرے ابو نے اونچی آواز میں اُنہیں کہا کہ مجھ سے جتنے مرضی پیسے لے لو لیکن یہ فائرنگ نہ کرو۔ لیکن اُںہوں نے میرے ابو کی کوئی بھی بات نہیں سُنی۔ میں نے تو پڑھا تھا کہ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی۔ مجھے سکول میں یہی پڑھایا گیا تھا کہ پولیس عوام کی محافظ ہے لیکن یہ کونسی پولیس تھی کہ جس نے ہماری آنکھوں کے سامنے ہی اتنی شدید فائرنگ کی کہ ہم اپنی امی اور باجی اریبہ کے قدموں میں بیٹھ گئے۔ گاڑی میں ابو کی آہیں تھیں، امی کی فریاد تھی، باجی اریبہ کی چیخ و پکار تھی لیکن کوئی ہماری بات نہیں سُن رہا تھا۔
میں نے ایک لمحے میں ہی محافظوں کو قاتل بنتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ پھر وہ قریب آئے گاڑی کے دروازے کھولے اور ہمیں باہر نکالا، ایک گاڑی میں ڈالا اور پھر فائرنگ شروع کردی۔ میں نے امی کا فون اُٹھایا کہ اپنے چاچو کو فون کروں کہ میرے امی ابو کو ان ظالم پولیس والوں نے قتل کردیا ہے لیکن ایک پولیس والے نے اپنا وزنی بوٹ میرے ہاتھ پر رکھ دیا۔ میری چیخ نکل گئی۔ اُس نے جھٹ سے وہ موبائل اُٹھایا اور اپنے جیب میں ڈال لیا۔ میں حیران پریشان اُس درندے کو دیکھتا رہا۔

میرے کولہے میں گولی لگی تھی، چھوٹی بہن کے ہاتھ پر گولی لگی تھی لیکن ہم اس قدر صدمے میں تھے کہ کسی گولی کا احساس تک نہیں ہوا تھا۔ پھر ہمیں اُس پیٹرول پمپ سے اُٹھا کر ہسپتال لاکر چھوڑدیا گیا۔ ہسپتال میں ایک نرس نے پوچھا کہ یہ تمہارے چہرے پر خون کے چھینٹے کہاں سے آئے میں نے کہا آنٹی یہ میری امی کے خون کے چھینٹے ہیں۔ انہیں مت صاف کرنا۔

تیرے دامن میں ستارے ہیں تو ہوں گے اے فلک
مجھ کو اپنی ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی

میرے ابو وٹس ایپ سے کوئی نہ کوئی اچھی چیز ڈاون لوڈ کرتے رہتے تھے اور ہمیں مزے مزے کی چیزیں دکھاتے رہتے تھے۔ ہم سب کے لئیے ابو نے ایک بہت ہی پیاری بچی کی آواز میں ایک نظم ڈاون لوڈ کی تھی جو ہم سب بہن بھائیوں کو بہت پسند تھی۔ جس کے بول تھے
میرےابو آئے ہیں لال مٹھائی لائے ہیں
حلوہ جامن، برفی بھی لڈو پیڑے لائے ہیں
امی دادی آو بھی ابو دور سے آئے ہیں
گھر میں خوشیاں پھیل گئیں پیارے ابو آئے ہیں
اب وہ نظم ہم دوبارہ نہیں سُن پائیں گے، اس نظم کا ایک ایک بول ہمارے لئیے قیامت کا لمحہ ہوگا۔ اب جب بھی کوئی بچہ اپنے والد کو ابو کہے گا تو جھٹ سے ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے ابو آجائیں گے۔ جب بھی کوئی دوست پیار سے امی جی کہے گا ہماری محبت کرنے والی امی کا چہرہ ہماری آنکھوں کے سامنے آجائے گا۔ جب جب بھی امی ابو کا ذکر ہوگا اُس کے ساتھ ہی اُن درندوں کی حیوانگی کا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم جائے گا۔
گھر میں کتنے لوگ ہیں ماں
پھر بھی سُونا سُونا ہے
پھولوں بھرا اِک باغ ہو جیسے
اور خوشبو بِنا ہر کونا ہے
دروازے جب بند کر دیں سارے
اک کھڑکی کو ہاں کھولتی ہوں
میں آج بھی رستہ تکتی ہوں
بھیا کو ہی لوری دو
رات پھر جاگ گیا تھا وہ
پھر دیر تلک وہ سویا نہیں
آنسو کب کے خشک ہوئے
اب تو کبھی وہ رویا نہیں
ہاں تیرے لمس کو ترستا ہے
وہ آج بھی رستہ تکتا ہے

میں چاہتا ہوں کہ سب کچھ ہوجائے لیکن اے کاش میں اپنی زندگی سے وہ دس منٹ کا منظر نکال سکوں جس میں میں نے اپنی پیاری بہن، اپنے شفیق ابو اور اپنی محبت کرنی والی امی کو گولیوں سے مرتے دیکھا ہے۔ ہمارے امی ابو نے تو کبھی ایسے مناظر ہمیں فلموں اور ڈراموں میں بھی نہ دیکھنے دئیے تھے لیکن یہ قیامت ہم پر کیوں ٹوٹی؟
اس لئیے چل نہ سکا کوئی بھی خنجر مجھ پر
میری شہ رگ پہ میری ماں کی دعا رکھی تھی

میں نے آج اُردو کی کتاب کھولی تو مجھے ایسا لگا کہ یہ نظم علامہ اقبال نے مجھ پر ہی لکھی ہے۔
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
لگتی ہے چوٹ دل پر آتا ہے یاد جس دم
شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا
وہ پیاری پیاری صورت وہ کامنی سی مورت
آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا
آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں
میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں
اس قید کا الٰہی دکھڑا کسے سناؤں
ڈر ہے یہیں قفس میں میں غم سے مر نہ جاؤں
جب سے چمن چھٹا ہے یہ حال ہو گیا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے غم دل کو کھا رہا ہے
گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دکھتے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے
آزاد مجھ کو کر دے او قید کرنے والے
میں بے زباں ہوں قیدی تو چھوڑ کر دعا لے!
ہمارے دور کے رشتہ دار ہیں وہ آسٹریلیا میں رہتے ہیں، ایک بڑی باجی آئیں تھیں اُنہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہاں کی پولیس بہت اچھی ہے۔ اگر میں کسی جنگل میں اکیلی ہوں اور میرے ارد گرد صرف ایک پولیس والا بھی موجود ہے تو میں مکمل طور پر محفوظ ہوں۔ میں نے بھی دل ہی دل میں یہ سمجھ لیا تھا کہ ہماری پولیس بھی بالکل ویسی ہی ہے جیسے اُس آپی نے بتایا ہے۔ لیکن میرے سارے اچھے تصورات، میری خوش فہمیاں ثابت ہوئیں۔ ہمیں تو مطالعہ پاکستان کے اُستاد نے بھی بتایا تھا کہ ہندو ہم پر بہت ظلم کرتے تھے۔ ہمیں نماز کی اجازت نہیں تھی۔ ہم سے نفرت کی جاتی تھی اور ہمیں کم تر سمجھا جاتا تھا۔ پھر قائد اعظم نے مسلمانون کو خواب غفلت سے جگایا اور اپنا الگ وطن بنایا۔ ایک ایسا وطن جہاں ہم سب محفوظ ہونگے، ہماری عزتیں محفوظ، ہماری جانیں محفوظ، ہمارے مال محفوظ۔ ہمارے اُستاد بڑے فخر سے ہمیں یہ پڑھاتے ہیں کہ
پاک سرزمین کا نظام قوت اخوت عوام
قوم، ملک ، سلطنت پائیندہ تابندہ باد
لیکن اب جب میں سکول جاوں گا تو اپنے اُستاد سے پوچھوں گا کہ یہ کیسا پاک سرزمین کا نظام ہے کہ میرے ہی محافظوں نے میری ماں کا سینہ گولیوں سے چھلنی کردیا؟ یہ کیسا پاک سرزمین کا نظام ہے کہ میرے ابو کی ایک نہ سُنی اور اُنہیں بے گناہ گولیاں ماردی گئیں؟ میری بڑی باجی کا کیا قصور تھا؟ یہ قوت اخوت عوام کہاں تھی جب ہمارے سر پر دن دیہاڑے قیامت برپا کی گئی؟ میں اپنے اُستاد سے پوچھوں گا کہ ترجمان ماضی تک تو بات ٹھیک ہے پر شان حال ایسی ہوتی ہے؟ ہمیں جلیاانوالہ باغ میں کی گئی قتل وغارت کا پڑھایا گیا لیکن وہ درد اُس وقت محسوس ہوا جب میری آنکھوں کے سامنے میرے ہنستے بستے گھر کو اُجاڑ دیا گیا۔
مجھے میرے سارے گھر والے میرے سارے رشتہ دار چومتے ہیں پیار کرتے ہیں لیکن کسی کے لمس میں مجھے اپنی ماں کے پیار کی جھلک نہیں ملتی۔ میرے چاچو بہت پیار کرتے ہیں لیکن میرے ابو جیسا تو کوئی بھی نہیں ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اے اللہ تونے مجھے کس امتحان میں ڈال دیا؟ میرے پاس کوئی ایسا جادو ہونا چاہیے میرے پاس اتنی طاقت ہونی چاہیے کہ میں اپنی زندگی سے وہ بدترین دس منٹ نکال پھینکوں جنہوں نے مجھے اور میری دوننھی معصوم بہنوں کو ننگ سر اور ننگ پیر تپتی دھوپ میں لاکھڑا کیا ہے۔
ہماری کتاب میں ایک نظم ہے جس میں جگنو بُلبل سے کہتا ہے کہ
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
لیکن افسوس قائد اعظم کے اس پاکستان میں ریاست ایک خونی اور قاتل کے روپ میں سامنے آئی ہے۔ یہ دوسروں کے کام آنے والے لوگ اب کتابوں تک ہی محدود ہوکررہ گئے ہیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں علامہ اقبال سے پوچھوں کہ ایسے پاکستان کا تصور دیا تھا آپ نے؟ کہ ریاست جب چاہے جسے چاہے بغیر کسی تصدیق و تفتیش کے بچوں کے ماں باپ کو اُن کی آنکھوں کے سامنے گولیوں سے بھون دے؟ جی چاہتا ہے کہ مزار قائد پہ جاوں اور کہوں یہ یہ رکھو ایسا پاکستان اپنے پاس ہمیں نہیں چاہیے۔
اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے
دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے